Tafseer-e-Majidi - At-Takaathur : 4
ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَؕ
ثُمَّ كَلَّا : پھر ۔ ہرگز نہیں سَوْفَ : جلد تَعْلَمُوْنَ : تم جان لوگے
ہاں ہاں پھر تمہیں عنقریب معلوم ہوا جاتا ہے،2۔
2۔ (مرتے ہی اور قبر میں پہنچتے ہی) یعنی یہ ساری غفلتیں محض عارضی ہیں، آنکھ بند ہوتے ہی عالم برزخ شروع ہوجائے گا، اور اسی کے ساتھ کشف حقائق بھی، خود ہی جان لوگے، کہ اصل حقیقت کیا تھی، اور تم اس دنیا میں کیسی شدید حماقت اور بھول میں پڑے رہے ! (آیت) ” کلا۔ ثم کلا “۔ جملہ کی تکرار تاکید مضمون کی غرض سے ہے۔ وذکروا للتکریرانہ للتاکید وانہ وعید بعد وعید (کبیر) مضمون کے مکرر آنے سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے، کہ اشارہ عذاب برزخ اور عذاب آخرت کی (2) دو مختلف حالتوں کی جانب ہے، اور یہ استدلال امیر المومنین حضرت علی ؓ کی جانب منسوب ہے۔ ان احدی الحالتین عذاب القبر والاخری عذاب القیامۃ (کبیر) عن ذرؓ قال سمعت علی ابن ابی طالب ؓ یقول ان ھذہ الایۃ تدل علی عذاب القبر (کبیر) قال علی ابن ابی طالب الاول فی القبور والثانی فی النشور (روح) عربی فصاحت وبلاغت پر جب بھی غور کیا جائے گا، عربوں ہی کی معیار سے کیا جائے گا، نہ کہ کسی اور ملک وقوم کے معیار سے، علامہ آلوسی سورة الکافرون کی تفسیر کے تحت میں امام لغت ونحو فراء کا قول نقل کرتے ہیں کہ فصحائے عرب ایسے تکرار سے کام لیتے ہیں، اور سننے والے یا تو اقرار میں بلی، بلی، کہتے جاتے ہیں، اور یا انکار میں لا، لا۔ قال الفراء ان القران نزل بلغۃ العرب ومن عادتھم تکرار الکلام للتاکید والافھام، فیقول المجیب بلی بلی والممتنع لالا،۔ (روح)
Top