Tafseer-e-Majidi - Hud : 27
فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا نَرٰىكَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَ مَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِ١ۚ وَ مَا نَرٰى لَكُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍۭ بَلْ نَظُنُّكُمْ كٰذِبِیْنَ
فَقَالَ : تو بولے الْمَلَاُ : سردار الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) مِنْ قَوْمِهٖ : اس کی قوم کے مَا نَرٰىكَ : ہم نہیں دیکھتے تجھے اِلَّا : مگر بَشَرًا : ایک آدمی مِّثْلَنَا : ہمارے اپنے جیسا وَ : اور مَا نَرٰىكَ : ہم نہیں دیکھتے تجھے اتَّبَعَكَ : تیری پیروی کریں اِلَّا : سوائے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو هُمْ : وہ اَرَاذِلُنَا : نیچ لوگ ہم میں بَادِيَ الرَّاْيِ : سرسری نظر سے وَمَا : اور نہیں نَرٰي : ہم دیکھتے لَكُمْ : تمہارے لیے عَلَيْنَا : ہم پر مِنْ : کوئی فَضْلٍ : فضیلت بَلْ نَظُنُّكُمْ : بلکہ ہم خیال کرتے ہیں تمہیں كٰذِبِيْنَ : جھوٹے
اس پر ان کی قوم میں جو سردار تھے وہ بولے کہ ہم تو تم کو اپنا ہی جیسا ایک انسان دیکھتے ہیں،35۔ اور ہم تو بس یہی دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیرو وہی ہوئے ہیں جو ہم میں سے بالکل رذیل ہیں (اور وہ بھی) سرسری رائے سے،36۔ اور ہم تم لوگوں میں کوئی بات (اپنے سے) زیادہ بھی نہیں مانتے، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا ہی سمجھتے ہیں،37۔
35۔ (اور کوئی بات تم میں بشریت سے مافوق پاتے نہیں پھر تمہیں مرد خدا کیسے مان لیں) مشرکوں اور مشرک صفتوں کی سمجھ میں کسی بشر کا خدا رسیدہ ہونا یا فرستادہ خدا ہونا نہ پہلے کبھی آیا نہ اب آرہا ہے وہ بزرگی کے صرف اسی کے قائل ہوتے ہیں جو نہ کھاتا پیتا ہو، نہ سوتا ہو، نہ عورت کی خواہش رکھتا ہو، پانی پر چلتا ہو، آگ پر بےتکلف قدم رکھ دیتا ہو، ہوا پر اڑتا ہو، غرض طرح طرح کے خوارق اور کرشمے دکھا کر اپنے ” مافوق البشر “ ہونے کا اعلان کرتا رہتا ہو۔۔۔ بشر کو دیوتا تسلیم کرلینا ان کے لئے اس سے کہیں آسان ہے کہ وہ بشر کو خدا کا بندہ مقرب ومقبول اور ایلچی تصور کریں، (آیت) ” مثلنا “۔ بشریت کی تاکید کے لئے ہے۔ یعنی بشر بھی ایسے جو ہم سے ذرا ممتاز نہیں بس ہماری ہی طرح کھانے پینے، رہنے بسنے والے، 36۔ (سو ان کا تمہیں نبی مان لینا کون سی سند اور افتخار کی بات ہے بلکہ ہم شرفاء ومعززین کو تو الٹا ننگ آتا ہے ان کی صف میں بیٹھنے سے، بڑے اور چھوٹے اونچ اور نیچ کا یہ نسبی ونسلی معیار جاہلی قوموں میں ہمیشہ مشترک رہا ہے۔ دعوت توحید پر ایمان اس وقت تک صرف عوام لائے تھے یہ ان عوام پر طنز بڑے لوگوں کی طرف سے ہے۔ 37۔ (تمہارے اس دعوائے نبوت وزعم رسالت میں) (آیت) ” من فضل “۔ سے مراد مال، جاہ، ثروت و ریاست ہیں جو دنیوی ومادی اعتبار سے معیار فضیلت سمجھے گئے ہیں، علامہ زمخشری آیت کے تحت میں لکھتے ہیں کہ خیر وہ لوگ تو اہل جاہلیت میں سے تھے ہی، دنیا کے صرف ظاہری ومادی پہلوؤں کو دیکھنے والے لیکن غضب تو یہ ہے کہ اپنے کو مسلمان کہلانے والے بھی آج اسی مرض حب دنیا میں مبتلا ہیں اور عزت وتحقیر کا معیار اسی دولت دنیوی کی زیادتی اور کمی کو بنائے ہوئے ہیں۔ کانوا جھالا ماکانوا یعلمون الاظاھرا من الحیاۃ الدنیا فکان الاشراف عندھم من لہ جاہ ومال کماتری اکثر المتسمین بالاسلام یعتقدون ذلک ویبنون علیہ اکرامھم واھانتھم (کشاف) اور آگے بھی سطروں پر سطریں اسی رنگ میں لکھتے چلے گئے ہیں (اور صاحب مدارک نے بھی ان کی تقلید میں بعض انہی فقروں کو دہرا دیا ہے۔۔۔۔ حب دنیا اس امت مرحومہ پر جب پانچویں اور چھٹی صدی میں اس قدر غالب آچکا تھا تو پھر اب چودھویں صدی ہجری کا ذکر ہی کیا ! افسوس ہے کہ انبیاء اور اولیاء کی حقیقی بزرگی کی طرف سے ان کے باطنی کمالات، ان کے اخلاقی فضائل کی طرف سے دنیا کی آنکھیں کل بھی بند رہیں اور آج بھی بند ہیں۔
Top