Tafseer-e-Baghwi - Yunus : 35
قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَآئِكُمْ مَّنْ یَّهْدِیْۤ اِلَى الْحَقِّ١ؕ قُلِ اللّٰهُ یَهْدِیْ لِلْحَقِّ١ؕ اَفَمَنْ یَّهْدِیْۤ اِلَى الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ یُّتَّبَعَ اَمَّنْ لَّا یَهِدِّیْۤ اِلَّاۤ اَنْ یُّهْدٰى١ۚ فَمَا لَكُمْ١۫ كَیْفَ تَحْكُمُوْنَ
قُلْ : آپ پوچھیں هَلْ : کیا مِنْ : سے شُرَكَآئِكُمْ : تمہارے شریک مَّنْ : جو يَّهْدِيْٓ : راہ بتائے اِلَى الْحَقِّ : حق کی طرف (صحیح) قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ يَهْدِيْ : راہ بتاتا ہے لِلْحَقِّ : صحیح اَفَمَنْ : پس کیا جو يَّهْدِيْٓ : راہ بتاتا ہے اِلَى الْحَقِّ : حق کی طرف (صحیح) اَحَقُّ : زیادہ حقدار اَنْ يُّتَّبَعَ : پیروی کی جائے اَمَّنْ : یا جو لَّا يَهِدِّيْٓ : وہ راہ نہیں پاتا اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يُّهْدٰى : اسے راہ دکھائی جائے فَمَا لَكُمْ : سو تمہیں کیا ہوا كَيْفَ : کیسا تَحْكُمُوْنَ : تم فیصلہ کرتے ہو
پوچھو کہ بھلا تمہارے شریکوں میں کون ایسا ہے کہ حق کا راستہ دکھائے ؟ کہہ دو کہ خدا ہی حق کا راستہ دکھاتا ہے بھلا جو حق کا راستہ دکھائے وہ اس قابل ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ کہ جب تک کوئی اسے راستہ نہ بتائے راستہ نہ پائے ؟ تو تم کو کیا ہوا ہے کیسا انصاف کرتے ہو ؟
(35)” قل ھل من شرکائکم من یھدی الی الحق “ جب وہ کہیں نہیں اور لازمی طور پر وہ کہیں گے ” قل اللہ یھدی للحق “ حق کی طرف ” افمن یھدی الی الحق احق ان یتبع امن لا یھدی الا ان یھدی “ حمزہ اور کسائی رحمہما اللہ نے ھاء کے سکون کے ساتھ اول کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے اور دیگر حضرات نے دال کی شد کے ساتھ پڑھا ہے ، پھر ابو جعفر اور قالون نے ھاء کی سکون کے ساتھ دونوں طرح پڑھا ہے اور ابو عمر و زبر اور سکون کے درمیان ھاء داخل کرتے ہیں اور حفص نے یاء کے زبر اور یاء کے زیر کے ساتھ پڑھا ہے اور ابوبکر دونوں یاء کو زیر اور باقی حضرات دونوں کے زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس کا معنی تمام صورتوں میں ” ہدایت دیتا “ ہے۔ پس جنہوں نے دال کو بغیر شد کے ذکر کیا ہے اس نے کہا ہے ” ھدیتہ فھدی “ یعنی اس نے ہدایت حاصل کی اور جس نے دال کی شد پڑھی ہے تو تاء کا دال میں ادغام کیا ہے ، پھر ابو عمرو و تخفیف کو ترجیح دینے میں اپنے مذہب کا قصد کرتے ہیں اور جنہوں نے ھاء کو ساکن پڑھا ہے انہوں نے ھاء کو اس کی حالت پر چھوڑ دیا ہے ۔ جیسا کہ ” تعدوا یخصمون “ میں کہا ہے جس ھاء کو زیردی ہے تو التفائے ساکنین کی وجہ سے اور جزم فرماتے ہیں کہ کسرہ کی حرکت دی جائے گی اور جس نے یاء کو ھاء کے ساتھ زیر دی ہے تو کسرہ کو کسرہ کے تابع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قول ” الا ان یھدی “ ہے ۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ جو حق کی طرف راہ دکھاتا ہے وہ زیادہ اتباع کا حق دار ہے یا وہ بت جو خود راہ پر نہیں چل سکتے مگر یہ کہ ان کو راہ دکھائی جائے۔ اگر یہ اعتراض ہو کہ بتوں کے بارے میں یہ کیسے کہہ دیا ” الا ان یھدی “ حالانکہ بتوں سے تو ہدایت پر چلنے یا ہدایت حاصل کرنے کا تصور ہی نہیں ہے ؟ تو جواب یہ ہے کہ بتوں کے حق میں ہدایت کا معنی منتقل ہونا ہے یعنی وہ بت خود ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں ہوسکتے جب تک ان کو اٹھا کر منتقل نہ کیا جائے۔ اس آیت میں بتوں کا عاجز ہونا بیان کیا ہے اور دوسرا جواب یہ ہے کہ ہدایت کو مجازا ً ذکر کیا ہے کہ مشرکین نے جب بتوں کو معبود بنایا اور ان کو سننے اور عقل رکھنے والوں کے مرتبہ میں اتارا تو اللہ نے ان کے لیے وہ تعبیر اختیار کی وہ علم اور عقل رکھنے والے کے لیے اختیار کی جاتی ہے۔ ” فما لکم کیف تحکمون “ تم کیسے فیصلے کرتے ہو جب تم نے گمان کیا کہ اللہ کا شریک ہے۔
Top