Al-Qurtubi - Faatir : 8
قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَآئِكُمْ مَّنْ یَّهْدِیْۤ اِلَى الْحَقِّ١ؕ قُلِ اللّٰهُ یَهْدِیْ لِلْحَقِّ١ؕ اَفَمَنْ یَّهْدِیْۤ اِلَى الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ یُّتَّبَعَ اَمَّنْ لَّا یَهِدِّیْۤ اِلَّاۤ اَنْ یُّهْدٰى١ۚ فَمَا لَكُمْ١۫ كَیْفَ تَحْكُمُوْنَ
قُلْ : آپ پوچھیں هَلْ : کیا مِنْ : سے شُرَكَآئِكُمْ : تمہارے شریک مَّنْ : جو يَّهْدِيْٓ : راہ بتائے اِلَى الْحَقِّ : حق کی طرف (صحیح) قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ يَهْدِيْ : راہ بتاتا ہے لِلْحَقِّ : صحیح اَفَمَنْ : پس کیا جو يَّهْدِيْٓ : راہ بتاتا ہے اِلَى الْحَقِّ : حق کی طرف (صحیح) اَحَقُّ : زیادہ حقدار اَنْ يُّتَّبَعَ : پیروی کی جائے اَمَّنْ : یا جو لَّا يَهِدِّيْٓ : وہ راہ نہیں پاتا اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يُّهْدٰى : اسے راہ دکھائی جائے فَمَا لَكُمْ : سو تمہیں کیا ہوا كَيْفَ : کیسا تَحْكُمُوْنَ : تم فیصلہ کرتے ہو
پوچھو کہ بھلا تمہارے شریکوں میں کون ایسا ہے کہ حق کا راستہ دکھائے ؟ کہہ دو کہ خدا ہی حق کا راستہ دکھاتا ہے بھلا جو حق کا راستہ دکھائے وہ اس قابل ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ کہ جب تک کوئی اسے راستہ نہ بتائے راستہ نہ پائے ؟ تو تم کو کیا ہوا ہے کیسا انصاف کرتے ہو ؟
آیت نمبر : 35۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” قل ھل من شرکائکم، من یھدی الی الحق “۔ کہا جاتا ہے : ھداہ الطریق والی الطریق دونوں کا معنی ایک ہے (اس نے اسے راستے کی رہنمائی کی) اور یہ پہلے گزر چکا ہے، یعنی کیا تمہارے معبودوں میں سے کوئی ہے جو دین اسلام کی طرف رہنمائی کرسکتا ہو۔ پس جب وہ کہیں نہیں اور یہ ضروری ہے۔ (آیت) ” قل اللہ یھدی للحق “۔ تو پھر آپ انہیں فرمائیے : اللہ ہی حق کی طرف رہنمائی فرماتا ہے۔ پھر آپ انہیں زجر وتوبیخ کرتے ہوئے اور بات کو پختہ کرتے ہوئے فرمائیے :) (آیت) ” افمن یھدی “ تو کیا وہ جو رہنمائی کرتا ہے (آیت) ” الی الحق “۔ (حق کی طرف) اور وہ اللہ سبحانہ وہ تعالیٰ ہے۔ (آیت) ” احق ان یتبع امن لا یھدی الا ان یھدی “۔ مراد وہ بت ہیں جو کسی رہنمائی نہیں کرسکتے، نہ وہ چل سکتے ہیں مگر یہ کہ انہیں اٹھایا جائے اور نہ وہ اپنی جگہ سے منتقل ہو سکتے ہیں مگر یہ کہ انہیں منتقل کیا جائے، جیسا کہ شاعر کا قول ہے : للفتی عقل یعیش بہ حیث تھدی ساقہ قدمہ : نوجوان کے لیے عقل ہے جس کے ساتھ وہ زندگی گزارتا ہے اس طرح کہ اس کے پاؤں اس کی پنڈلی کی رہنمائی کرتے ہیں، اور کہا گیا ہے : اس سے مراد وہ رؤسا اور گمراہ کرنے والے ہیں جو اپنی بھی ہدایت کی طرف رہنمائی نہیں کرسکتے مگر یہ کہ ان کی رہنمائی کی جائے اور (آیت) ” یھدی “ میں چھ قراءتیں ہیں : (1) سوائے ورش کے اہل مدینہ نے (آیت) ” یھدی “ یا کے فتحہ، ہا کے سکون اور دال کی تشدید کے ساتھ قرات کی ہے، پس انہوں نے اپنی قرات میں وو ساکنوں کو جمع کیا ہے جیسا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے قول : (آیت) ” لا تعدوا “ اور تخصمون “ میں کیا ہے، نحاس نے کہا ہے : وو ساکنوں کے جمع ہونے کی صورت میں کوئی بھی اسے بولنے پر قدرت نہیں رکھتا، محمد بن یزید نے کہا ہے : جو بھی اس طرح کا قصد کرے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسرہ کی طرف مائل کرکے خفیف سی حرکت دے اور سیبویہ اسے اختلاس حرکت کا نام دیتے ہیں۔ (2) ابو عمرو اور قالون نے ایک روایت میں اسے فتحہ اور اسکان کے درمیان پڑھا ہے، یہ اخفا اور اختلاس کے بارے میں ان کے مذہب کی بنا پر ہے۔ (3) ابن عامر، ابن کثیر، ورش، اور ابن محیصن نے (آیت) ” یھدی “ یا اور ہا کے فتحہ اور دال کی تشدید کے ساتھ پڑھا ہے، نحاس نے کہا ہے : یہ قرات عربی میں بین اور واضح ہے، یہ اصل میں یھتدی ہے تاکہ دال میں ادغام کردیا گیا ہے اور اس کی حرکت ہا کو دے دی گئی ہے۔ (4) حفص، یعقوب اور اعمش نے ابوبکر سے ابن کثیر کی قرات کی مثل قرات کی ہے، مگر یہ کہ انہوں نے ہا کو کسرہ دیا ہے انہوں نے کہا ہے : کیونکہ جزم کو جب مجبورا حرکت دی جائے تو اسے کسرہ کی حرکت دی جاتی ہے، ابو حاتم نے کہا ہے : یہ سفلی مضر کی لغت ہے۔ (5) ابوبکر نے عاصم سے یھدی یا اور ہا کے کسرہ اور دال کی تشدید کے ساتھ قرات کی ہے، یہ تمام کسرہ کی اتباع کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورة البقرہ میں یخطف کے تحت گزر چکا ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ ان کی لغت ہے جنہوں نے (آیت) ” نستعین “ اور (آیت) ” لن تمسنا النار “۔ وغیرہ پڑھا ہے۔ اور سیبویہ (آیت) ” یھدی “ کو جائز قرار نہیں دیتے البتہ تھدی، یھدی، اور ھدی میں جائز قرار دیتے ہیں انہوں نے فرمایا : کیونکہ یا میں کسرہ ثقیل ہوتا ہے۔ (6) حمزہ، کسائی، خلف، یحییٰ بن وثاب اور اعمش نے یھدی یا کے فتحہ، ہا کے سکون اور دال کی تخفیف کے ساتھ قرات کی ہے۔ یہ ھدی یھدی سے ہے۔ نحاس نے کہا ہے : عربی میں اس قرات کی دو وجہیں ہیں اگرچہ وہ بعید ہیں، دو وجہوں میں سے ایک یہ ہے کہ کسائی اور فراء دونوں نے کہا ہے : یھدی بمعنی یھتدی ہے۔ ابو العباس نے کہا ہے : یہ معروف نہیں ہے، لیکن تقدیر عبارت ہے امن لایھدی غیرہ (کیا وہ جو غیر کی رہنمائی نہیں کرسکتا) کلام مکمل ہوگئی، پھر کہا : (آیت) ” الا ان یھدی “۔ یہ اول سے نیا کلام ہے، یعنی لیکن وہ محتاج ہے کہ اس کی رہنمائی کی جائے، پس یہ استثنا منقطع ہے، جیسا کہ آپ کہتے ہیں : فلان لا یسمع غیرہ الا ان یسمع ای لکنہ یحتاج ان یسمع (فلاں غیر کو سنا نہیں سکتا لیکن وہ محتاج ہے کہ اسے سنایا جائے) ابو اسحاق نے کہا ہے : (آیت) ” فمالکم “۔ یہ کلام تام ہے اور اس کا معنی ہے : پس بتوں کی عبادت میں تمہارے لیے کون سی شے ہے، پھر انہیں کہا گیا : (آیت) ” کیف تحکمون “ تم اپنے لیے کیسے فیصلے کرتے ہو اور تم یہ صریح باطل فیصلے کر رہے ہو تم ایسے معبودوں کی عبادت کرتے ہو جو اپنے آپ کو بھی کسی چیز کا نفع نہیں دے سکتے مگر یہ کہ ان کے ساتھ کوئی عمل کیا جائے، اور اللہ تعالیٰ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے اور تم اس کی عبادت چھوڑ رہے ہو۔ پس (آیت) ” کیف تحکمون “۔ کے سبب محل نصب میں ہے۔
Top