Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 103
وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُهٗ بَشَرٌ١ؕ لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْهِ اَعْجَمِیٌّ وَّ هٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ
وَ : اور لَقَدْ نَعْلَمُ : ہم خوب جانتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُعَلِّمُهٗ : اس کو سکھاتا ہے بَشَرٌ : ایک آدمی لِسَانُ : زبان الَّذِيْ : وہ جو کہ يُلْحِدُوْنَ : کجراہی (نسبت) کرتے ہیں اِلَيْهِ : اس کی طرف اَعْجَمِيٌّ : عجمی وَّھٰذَا : اور یہ لِسَانٌ : زبان عَرَبِيٌّ : عربی مُّبِيْنٌ : واضح
اور ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ انہیں تو ایک آدمی سکھلا جاتا ہے،164۔ (حالانکہ) جس شخص کی جانب اس کی ناحق نسبت کرتے ہیں اس کی زبان تو عجمی ہے اور یہ (کلام) تو فصیح عربی زبان (میں) ہے،165۔
164۔ یہ ایک نومسل رومی نصرانی غلام تھا، انجیل (علیہ السلام) وغیرہ سے واقف۔ رسول اللہ ﷺ کی باتوں کو شروع ہی سے توجہ ودلچپسی کے ساتھ سنتا تھا، تو آپ ﷺ بھی کبھی کبھی اس کے پاس جابیٹھتے تھے، تو بس اتنی سی بات پر عقل کے دشمنوں کو ایک شگوفہ ہاتھ آگیا، بعض روایتوں میں آتا ہے کہ یہ دو غلام تھے، جو مکہ میں شمشیر سازی کا کام کرتے تھے اور توریت انجیل بھی پڑھا کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ ادھر سے گزرتے، تو وہاں رک جاتے، بعض نافہموں نے ایک دن خود انہی سے پوچھ دیا کہ ” کیا تمہی انہیں قرآن سکھاتے ہو “ ؟ ” وہ بولے “ ہم بھلا انہیں سکھا سکتے ہیں، ہم تو خود ہی ان سے سیکھتے ہیں “۔ (آیت) ” یقولون انما یعلمہ بشر “۔ عجب کج فہم لوگ تھے، قرآن کے حیرت انگیزاثر اس کے اعلی مطالب، اسکی حکیمانہ تعلیمات، اس کی معجزانہ بلاغت کو دیکھتے، تو یہ کہہ اٹھتے کہ یہ ان صاحب کا کلام نہیں ہوسکتا، کوئی نہ کوئی انہیں سکھاتا ضرور ہے۔ اور اب ان کا حمق اس ” کوئی نہ کوئی “ کی تلاش کرنے لگتا۔ اور اس بدحواسی میں کبھی اس کا نام لے دیتے کبھی اس کا ! ہر طرف ٹھوکریں کھاتے رہتے، اور یہ نہ ہوتا کہ کبھی خود حق تعالیٰ ہی کا نام فرض کرلیتے ! ٹھیک وہی بھول بھلیاں جس میں آج بڑے بڑے ” روشن خیال “ مستشرقین بھٹکتے رہتے ہیں۔ 165۔ عرب کے اہل زبان سے خطاب ہے کہ قرآن مجید کی معنوی بلندیوں تک تمہارا ذہن اگر نہیں پہنچتا تو خیر، لیکن یہ کیا قیامت ہے کہ اس معجزانہ فصاحت وحسن انشاء کا بھی تم کچھ لحاظ نہیں کرتے، اور اس بےانتہابلیغ کلام کو منسوب ایسے شخص کی جانب کررہے ہو، جو سرے سے اہل زبان تک نہیں ! (آیت) ” اعجمی “۔ وہ ہے جو صاف گفتگو اور اظہار ما فی الضمیر پر قادر نہ ہو، خواہ نسلا عرب ہی ہو، قال ابوالفتح الموصلی ترکیب، ع، چ، م وضع فی کلام العرب للابھام والاخفاء وضد البیان والایضاح (کبیر) قال الفراء واحمد بن یحی الاعجم الذی فی لسانہ عجمۃ وان کان من العرب (کبیر) وقال ابوعلی الفارسی الاعجم الذی لایفصح سواء کان من العرب اومن العجم (کبیر) الاعجم من فی لسانہ عجمۃ عرب یا کان اوغیر عربی (راغب) (آیت) ” یلحدون الیہ “۔ الحاد کے معنی راہ حق وصواب سے ہٹ کر جانے کے ہیں، اور ملحد کو اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ راہ حق اور تمام ادیان سے ہٹا ہوا ہوتا ہے۔ یقول لحد والحد اذا مال عن القصد ویقال للعادل عن الحق ملحد (کبیر) ومنہ الملحد لانہ امال مذھبہ عن الادیان کلھا (کبیر) (آیت) ” ھذا لسان عربی مبین “۔ یعنی یہ کلام تو معجزانہ حد تک فصیح ہے۔ جسے ہر اہل زبان، مومن ہو یا منکر بین طور پر دیکھ سکتا ہے۔
Top