Tadabbur-e-Quran - An-Nahl : 103
وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُهٗ بَشَرٌ١ؕ لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْهِ اَعْجَمِیٌّ وَّ هٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ
وَ : اور لَقَدْ نَعْلَمُ : ہم خوب جانتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُعَلِّمُهٗ : اس کو سکھاتا ہے بَشَرٌ : ایک آدمی لِسَانُ : زبان الَّذِيْ : وہ جو کہ يُلْحِدُوْنَ : کجراہی (نسبت) کرتے ہیں اِلَيْهِ : اس کی طرف اَعْجَمِيٌّ : عجمی وَّھٰذَا : اور یہ لِسَانٌ : زبان عَرَبِيٌّ : عربی مُّبِيْنٌ : واضح
اور ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کو تو ایک انسان سکھاتا ہے۔ اس شخص کی زبان جس کی طرف یہ منسوب کرتے ہیں عجمی ہے اور یہ فصیح عربی زبان ہے
وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّهُمْ يَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا يُعَلِّمُهٗ بَشَرٌ ۭ لِسَانُ الَّذِيْ يُلْحِدُوْنَ اِلَيْهِ اَعْجَمِيٌّ وَّھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِيْنٌ۔ مخالفین کے ایک اور فتنہ کا رد : وَلَقَدْ نَعْلَمُ در اصل وَلَقَدْ کنا نَعْلَمُ ہے یعنی بعض اوقات مضارع سے پہلے افعال ناقصہ کو حذف کردیتے ہیں۔ اس اسلوب پر پیچھے سورة بقرہ وغیرہ میں تفصیل سے بحث ہوچکی ہے۔ یہ مخالفین کے ایک دوسرے فتنے کا حوالہ دیا ہے جو وہ لوگوں کو قرآن سے بدگمان کرنے کے لیے اٹھائے ہوئے تھے وہ کہتے تھے کہ اس کلام کو وحی الٰہی اور فرشتہ کا لایا ہوا کہنا تو محض ایک دھونس ہے۔ یہ تو فلاں شخص ان کو سکھاتا ہے اور یہ حضرت اس کو سنا کر ہم پر رعب جماتے ہیں کہ اس کو خدا نے جبریل امین کے ذریعہ سے ان پر اتارا ہے۔ یہاں کسی متعین شخص کا نام مذکور نہیں، صرف اس کے عجمی ہونے کی تصریح ہے۔ مفسرین نے یہاں ایک سے زیادہ ناموں کا ذکر کیا ہے۔ جن میں ایک نام سلمان فارسی کا بھی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مخالفین انہی کی طرف اشارہ کرتے رہے ہوں۔ قرآن کو ان کے نام سے بحث نہیں، صرف اعتراض سے بحث ہے۔ اور اسی کا اس نے جواب دیا ہے۔ جواب کی تمہید ہی اس طرح اٹھائی گئی ہے جس سے اس اعتراض کی لغویت واضح ہورہی ہے۔ اس لیے کہ ولقد نعلم کے اسلوب ہی میں یہ بات مضمر ہے کہ ہم برابر معترضین کی یہ بکواس سنتے رہے ہیں لیکن اس کی لغویت کے سبب سے ہم نے اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ اس کے بعد فرمایا کہ اگر ان بوالفضولوں کو قرآن کے معانی و حقائق کی پرکھ نہیں ہے تو کم از کم اس کے بیان کی سطوت و جلالت اور اس کی زبان کی بےمثال فصاحت پر ہی غور کرتے تو ان پر اپنے اس اعتراض کی لغویت واضح ہوجاتی کہ کہاں ایک کج مج بیان عجمی اور کہاں یہ حوض کوثر کی دھلی ہوئی عربی مبین۔ آخر ایسا کون کون ہوسکتا ہے جو منہ کے اڑائے چھینٹوں اور اسمان کی بارش میں امتیاز نہ کرسکے۔ یہ بات علی سبیل التنزل فرمائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن کے معانی و حقائق تک تو ان لوگوں سے پہنچنے کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی جن کو گہر اور پشنیز میں امتیاز نہیں ہے لیکن ان کو اپنی طلاقت لسانی پر بڑا ناز ہے تو کم از کم اس کی زبان ہی پر غور کرتے کہ ایک عجمی تو درکنار خود ان کے کسی شاعر یا خطیب کے بس میں بھی یہ نہیں ہے کہ اس طرح کا کلام پیش کرسکے۔ یہاں تک کہ خود پیغمبر کے اپنے کلام اور اس کلام میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔
Top