Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 126
وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ١ؕ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر عَاقَبْتُمْ : تم تکلیف دو فَعَاقِبُوْا : تو انہیں تکلیف دو بِمِثْلِ : ایسی ہی مَا عُوْقِبْتُمْ : جو تمہیں تکلیف دی گئی بِهٖ : اس سے ۭوَلَئِنْ : اور اگر صَبَرْتُمْ : تم صبر کرو لَهُوَ : تو وہ خَيْرٌ : بہتر لِّلصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والوں کے لیے
اور اگر تم لوگ بدلہ لینا چاہو تو انہیں اتنا ہی دکھ پہنچاؤ جتنا دکھ انہوں نے پہنچایا ہے،190۔ اور اگر تم صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے حق میں بہت ہی اچھا ہے،191۔
190۔ (اور ان حدود سے آگے نہ بڑھو) انتقام کا وقت بھی نازل ہوتا ہے، مظلوم کا نفس جوش انتقام میں عموما حد سے آگے بڑھ جاتا اور اب خود ظالم ہوجاتا ہے، قرآن مجید نے اس اشتعال کے وقت جذبات پر قابورکھنے کی بار بارتاکید کی ہے، اور انتقام کو حدود کے اندر رکھنے کا خاص اہتمام فرمایا ہے، (آیت) ” وان عاقبتم “۔ خطاب اب محض رسول اللہ ﷺ سے نہیں، عام امت سے ہے، شریعت میں عام فطرت بشری کا لحاظ کرکے انتقام لینا بالکل جائز رکھا گیا ہے۔ اور اس مقام کا نام اصطلاح سلوک میں مقام رخصت ہے۔ (آیت) ” ماعوقبتم بہ “۔ یہاں عقاب محض بہ طریق مشاکلت استعمال ہوا ہے، ورنہ عقاب کے عام لغوی معنی تو کسی جرم سابق پر سزا دینے کے ہیں۔ اے بمثل مافعل بکم۔۔۔ علی نھج المشاکلۃ (روح) وان عاقبتم “۔ الخ ترکیب کلام خود کہہ رہی ہے کہ بہتر اور افضل تو انتقام نہ لینا ہی ہے۔ لیکن اگر اس پر نہ قدرت ہو اور مجرم کو سزا دینے پر ہی تل جاؤ، تو اتنی احتیاط تو بہرحال ضروری ہے کہ سزا بس جرم ہی کے متناسب ہو۔ اس سے زایدہرگز نہ ہونے پائے۔ جیسے مریض سے طبیب کہتا ہے کہ بدپرہیزی اگر کرنا ہی ہے تو فلاں مقدار سے زاید نہ کرنا۔ یعنی ان رغبتھم فی استیفاء القصاص فاقنعوا بالمثل ولا تزیدوا علیہ (کبیر) دلیل علی ان الاولی لہ ان لایفعل (کبیر) 191۔ (کہ اس سے خوب مراتب قربت بڑھتے ہیں) اس مقام کا نام اصطلاح سلوک میں عزیمت ہے۔ اسلام نے بالکل صحیح طور پر فطرت بشری کے مطابق اجازت تو انتقام لے لینے کی بھی دی ہے، لیکن مقام بلند صبر و تحمل اور عفو و درگزر ہی کا ہے۔ متعدد مفسرین نے یہاں یہ لکھ دیا ہے، کہ یہ آیت آیت قتال سے منسوخ ہے۔ لیکن جیسا کہ فخرالمفسرین رازی (رح) نے فرمایا، اور بالکل صحیح فرمایا، اسکو جہاد و قتال کے مسئلہ سے کوئی سروکار ہی نہیں، اس میں تو ایک اخلاقی تعلیم حسن ادب کی، اور لوگوں کے ساتھ زیادتی نہ کرنے کی دی گئی ہے، اور وہ اپنی جگہ قائم ہے۔ وھذا فی غایۃ البعد لان المقصود من ھذہ الایۃ تعلیم حسن الادب فی کیفیۃ الدعوۃ الی اللہ تعالیٰ وترک التعدی وطلب الزیادۃ ولا تعلق لھذہ الاشیاء بایۃ السیف (کبیر) فقہاء نے یہیں سے یہ نکالا ہے کہ قصاص لینے سے بڑھ کر مرتبہ عفو کردینے کا ہے، وقد دلت علی ان العفو عن القاتل والجانی افضل من الستیفاء القصاص (جصاص)
Top