Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 31
وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْ١ؕ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا
وَلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو تم اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد خَشْيَةَ : ڈر اِمْلَاقٍ : مفلسی نَحْنُ : ہم نَرْزُقُهُمْ : ہم رزق دیتے ہیں انہیں وَاِيَّاكُمْ : اور تم کو اِنَّ : بیشک قَتْلَهُمْ : ان کا قتل كَانَ : ہے خِطْاً كَبِيْرًا : گناہ بڑا
اور اپنی اولاد کو ناداری کے اندیشہ سے قتل مت کردیا کرو،44۔ ہم ہی ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی،45۔ بیشک ان کا قتل کرنا بہت بڑا جرم ہے
44۔ قتل اولاد کی حمایت میں ایک بڑی دلیل جاہلی قوموں کے ہاتھ میں والدین کی مفلسی رہی ہے اور اسی دلیل سے کام لے کر آج بیسویں صدی میں بڑے طمطراق کے ساتھ ” منع حمل “ کی تحریک کو اٹھایا گیا ہے۔ قرآن مجید اس نظریہ باطل کی قطعی تردید کرتا ہے۔ سورة انعام، پ 8 میں اس پر حاشیہ گذر چکا۔ متعدد جاہلی قوموں کا نظریہ یہ رہا ہے کہ افراد کا سبہ چونکہ عورتوں میں نہیں، صرف مردوں ہی میں پیدا ہوتے ہیں، اس لئے عورت کو قومی دولت میں شرکت کا اور اس لئے زندہ رہنے کا بھی کوئی حق نہیں۔ عرب جاہلی میں بھی یہی نظریہ عام تھا۔ العرب کانوا یقتلون البنات لعجز البنات عن الکسب وقدرۃ البنین علیہ بسبب اقدامھم علی النھب والغارۃ (کبیر) 45۔ (اور ہماری ربوبیت ورزاقیت کے قوانین ان اصول سے بالکل الگ ہیں جو تم نے اپنی محدود نظر کے موافق معاشیات واقتصادیات کے گڑھ رکھے ہیں) اسی طرح کی ایک آیت، ایسے ہی موقع پر سورة الانعام (رکوع 19) میں بھی آئی ہے۔ مگر وہاں الفاظ ہیں۔ نرزقکم وایاھم یہاں اس کے برعکس صیغہ غائب پہلے اور صیغہ مخاطب بعد کو، یہ فرق کیوں ؟ اصل یہ ہے کہ دو مسئلہ الگ الگ ہیں ایک چیز تو ہے نفس افلاس یا اس کا وقوع۔ یعنی والدین واقعۃ اور فی الحال افلاس میں مبتلا ہیں اور اس لئے بچوں کی زندگی ختم کئے دیتے ہیں، اور دوسری چیز ہے خوف افلاس، یعنی والدین فی الحال تو افلاس میں مبتلا نہیں لیکن اندیشہ یہ کررہے ہیں کہ اولاد اگر پیدا ہونی شروع ہوگئی تو موجودہ آمدنی کفایت نہ کرے گی، قرآن مجید نے ان دونوں فتنوں کے درمیان فرق ملحوظ رکھا ہے۔ اول الذکر کے موقع پر محض من املاق آیا ہے اور آخر الذکر کے موقع پر (آیت) ” من خشیۃ املاق “۔ لایا گیا ہے۔ اور حرام اگرچہ دونوں صورتوں میں قتل اولاد کو ٹھہرایا ہے لیکن جہاں میں املاق ہے یعنی افلاس کا تحقق پایا جاچکا ہے، وہاں خطاب براہ راست ہے۔ (آیت) ” نرزقکم وایاھم “۔ یعنی اے گروہ والدین تمہیں تو بہرحال ہم رزق پہنچا ہی رہے ہیں اسی طرح اولاد کو پہنچاتے رہیں گے اور جہاں (آیت) ” خشیۃ املاق “۔ یعنی تحقق افلاس فی الحال نہیں ہے بلکہ صرف اس کا اندیشہ لگا ہوا ہے وہاں ترتیب خطاب میں ایک ذرا سالطیف ونازک فرق کردیا ہے (آیت) ” نرزقھم وایاکم “۔ ہم انہیں بھی رزق پہنچاتے رہیں گے جیسا کہ تمہیں اب تک پہنچاتے رہے ہیں۔
Top