Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 92
اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللّٰهِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ قَبِیْلًاۙ
اَوْ : یا تُسْقِطَ : تو گرادے السَّمَآءَ : آسمان كَمَا زَعَمْتَ : جیسا کہ تو کہا کرتا ہے عَلَيْنَا : ہم پر كِسَفًا : ٹکڑے اَوْ تَاْتِيَ : یا تو لے آوے بِاللّٰهِ : اللہ کو وَالْمَلٰٓئِكَةِ : اور فرشتے قَبِيْلًا : روبرو
یا تم ہم پر آسمان کے ٹکڑے گرا دو جیسا کہ تم دعوی رکھتے ہو،133۔ یا تم اللہ اور فرشتوں ہی کو (ہمارے) سامنے لاکھڑا کرو
133۔ خلاصہ ان تمام فرمائشوں کا یہ کہ ہم تو تمہارے دعوائے رسالت ونبوت میں تمہیں سچا اس وقت سمجھیں گے جب ایسے عجیب و غریب حسی ومادی خوارق سے ہمیں دوچار کردو۔ نبوت و رسالت کی کل کائنات ان ” عقلاء “ کے ذہن میں یہ تھی کہ نبی و رسول کو (نعوذباللہ) اعلی درجہ کا بازیگر یا شعبدہ باز ہونا چاہیے ! (آیت) ” جنۃ من نخیل وعنب “۔ کھجور اور انگور کے باغ اہل عرب کے نزدیک بہت ہی بڑی نعمت تھے۔ (آیت) ” فتفجر۔۔۔ تفجیرا “۔ پھر ان باغوں میں نہروں ندیوں کا چلنا اہل عرب کے نزدیک خوشحالی اور راحت کی آخری معراج تھی۔ (آیت) ” تسقط السمآء “۔ یہ آسمان کے ٹکڑوں کا گرانا اہل عرب کے نزدیک انتہائی قدرت کی دلیل تھی۔ (آیت) ” تاتی۔۔۔ قبیلا “۔ یعنی آسمانی اور فرشتوں کو رو دررو ہمارے سامنے لاکھڑا کرو۔ (آیت) ” یکون۔۔۔ زخرف اوترقی فی السمآء یہ سونے کا مکان ہونا یا آسمان پر چڑھ جاناسائلین کی نظر میں آخری اور انتہائی عجائب وخوارق تھے۔
Top