Tafseer-e-Majidi - Al-Kahf : 76
قَالَ اِنْ سَاَلْتُكَ عَنْ شَیْءٍۭ بَعْدَهَا فَلَا تُصٰحِبْنِیْ١ۚ قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَّدُنِّیْ عُذْرًا
قَالَ : اس (موسی) نے کہا اِنْ سَاَلْتُكَ : اگر میں تم سے پوچھوں عَنْ شَيْءٍ : کسی چیز سے بَعْدَهَا : اس کے بعد فَلَا تُصٰحِبْنِيْ : تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا قَدْ بَلَغْتَ : البتہ تم پہنچ گئے مِنْ لَّدُنِّىْ : میری طرف سے عُذْرًا : عذر کو
(موسی (علیہ السلام) نے) کہا (اچھا اب) اس کے بعد میں آپ سے کسی چیز کے متعلق پوچھوں تو آپ مجھ کو اپنے ساتھ نہ رکھئے بیشک آپ میرے بارے میں حد عذر کو پہنچ چکے،110۔
110۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) گویا یہ فرما رہے ہیں کہ اچھا اب کی اور درگزر سے کام لیجئے۔ لیکن آپ بھی شرائط کی خلاف ورزی کو کہاں تک برداشت کرسکتے ہیں۔ آپ اپنے عذر کی حد کو پہنچ گئے اب اگر میں آپ سے کوئی اور سوال کروں تو آپ بیشک معذور ہیں اور مجھے فورا اپنے ساتھ سے الگ کرسکتے ہیں۔ ” بعض کو اس قصہ سے یہ دھوکا ہوگیا ہے کہ پیرا گر کوئی خلاف شرع کام کرے اس پر انکار نہ کرے۔ چناچہ اسی قصہ میں حدیث میں آیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اگر صبر کرتے تو خوب ہوتا۔ جواب یہ ہے کہ خضر (علیہ السلام) کا کمال نص سے معلوم تھا۔ اس لئے سکوت جائز تھا۔ دوسرے کا ان پر قیاس کرنا مع الفارق ہے۔ “ (تھانوی (رح) (آیت) ” عن شی ٗ “۔ یعنی ان چیزوں سے متعلق جو آپ سے بہ سلسلہ عجائب وخوارق سرزد ہوتی ہیں۔ اے عن شیء تفعلہ من الاعاجیب (روح)
Top