Tafseer-e-Majidi - Maryam : 21
قَالَ كَذٰلِكِ١ۚ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ١ۚ وَ لِنَجْعَلَهٗۤ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَ رَحْمَةً مِّنَّا١ۚ وَ كَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا
قَالَ : اس نے کہا كَذٰلِكِ : یونہی قَالَ : فرمایا رَبُّكِ : تیرا رب هُوَ : وہ یہ عَلَيَّ : مجھ پر هَيِّنٌ : آسان وَلِنَجْعَلَهٗٓ : اور تاکہ ہم اسے بنائیں اٰيَةً : ایک نشانی لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَرَحْمَةً : اور رحمت مِّنَّا : اپنی طرف سے وَكَانَ : اور ہے اَمْرًا : ایک امر مَّقْضِيًّا : طے شدہ
(فرشتہ نے) کہا (یہ) یوں ہی ہوگا،27۔ تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ یہ میرے لئے آسان ہے،28۔ اور (یہ اس لئے بھی) تاکہ ہم اسے لوگوں کے لئے ایک نشان بنادیں،29۔ اور اپنی طرف سے سبب رحمت،30۔ اور یہ ایک بات طے شدہ ہے،31۔
27۔ (بلامس بشر) انجیل میں یہ قصہ یوں درج ہے :۔ ” اب یسوع مسیح کی پیدائش اس طرح ہوئی کہ جب اس کی ماں مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوگئی تو ان کے اکٹھے ہونے سے پہلے وہ روح القدس کی قدرت سے حاملہ پائی گئی۔ پس اس کے شوہر یوسف نے جو راستباز تھا اور اسے بدنام کرنا نہیں چاہتا تھا، چپکے سے اس کے چھوڑدینے کا ارادہ کیا۔ وہ ان باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ خداوند کے فرشتہ نے اسے خواب میں دکھائی دے کر کہا اے یوسف ابن داؤد، اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر، کیونکہ جو اس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت سے ہے، وہ بیٹا جنے گی اور تو اس کا نام یسوع رکھنا “ (متی۔ 1: 18۔ 21) قرآن مجید کی توحید خالص اور انجیل کے شرک آمیز انداز بیان کا فرق اسی سے ظاہر ہے کہ قرآن مجید میں اس واقعہ کو ہر جگہ قدرت پروردگار ہی کا کرشمہ قرار دیا ہے بہ خلاف اس کے انجیل میں ایک نہیں دو دو جگہ اسے ” روح القدس کی قدرت “ کی جانب منسوب کیا ہے۔ 28۔ خدائے تعالیٰ تو کہتے ہی اس ہستی کو ہیں جو سارے اسباب سے بالاتر اور مسبب الاسباب ہے۔ سلسلہ اسباب کا خالق وفاطر، اسباب اس کے پابند و محکوم، وہ اسباب کا پابند و محکوم نہیں، اور اگر کسی برتر ہستی کو محکوم وپابند ہی تسلیم کرنا ہے تو وہ اور جو کچھ بھی ہو بہرحال خدا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کسی خدا پرست کی زبان کا کسی خدائی فعل سے متعلق اس بنا پر انکار پر کھلتا کہ وہ خارق عادت ہے دلیل عقل کی نہیں، بےعقلی وحمق کی ہے ... اب رہا خدا کا منکر تو اس سے گفتگو ولا نفس وجود باری پر کی جائے گی یہ کہ ان جزئیات پر۔ (آیت) ” ھو “۔ یعنی یہ تخلیق بلااسباب عادیہ۔ 29۔ (اپنی قوت وقدرت کا، اور یہ دکھا دیں کہ ہم تخلیق کائنات پر ہر طرح قادر ہیں، بہ توسط اسباب عادیہ بھی اور بلاتوسط اسباب عادیہ بھی) اے علامۃ لبنی اسرائیل ولد بلااب (ابن عباس ؓ 30۔ ان کے حق میں جو ہمارے اس نشان قدرت پر ایمان لائیں، اور اس سے ہدایت حاصل کریں) 31۔ (جو پوری ہو کر رہے گی) یہ سارا زور اور ساری تاکیدی کس امر کی دلیل ہیں ؟ اس امر کی کہ کوئی بات، معمول عام کے خلاف واقع ہونے کو جارہی تھی، اور وہ یہی ولادت بلاواسطہ والد تھی، ورنہ اگر محض عام و طبعی ولادت کا ذکر مقصود تھا تو اس شدومد اور اتنے اہتمام کی کیا ضرورت تھی ؟ جو لوگ کہتے ہیں کہ قرآن مجید مسیح (علیہ السلام) کی بن باپ کی ولادت کا قائل نہیں وہ ذرا قرآن کے بین السطور پر بھی غور فرمالیں۔
Top