Tafseer-e-Majidi - Maryam : 2
ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٗ زَكَرِیَّاۖۚ
ذِكْرُ : ذکر رَحْمَتِ : رحمت رَبِّكَ : تیرا رب عَبْدَهٗ : اپنا بندہ زَكَرِيَّا : زکریا
(یہ) تذکرہ ہے آپ کے پروردگار کی رحمت (فرمانے) کا اپنے بندہ زکریا پر،2۔
2۔ (آیت) ” ذکریا “۔ پر حاشیہ سورة آل عمران پارہ 3 میں گزر چکا۔ آپ کی رسالت کا اثبات صرف قرآن مجید کرتا ہے، یہود اور نصرانی دونوں ان کی رسالت کے منکر ہیں۔ نصرانیوں کے ہاں ان کی حیثیت ہیکل بیت المقدس کے ایک بزرگ مجاور و خادم کی ہے۔ (آیت) ” عبدہ “۔ یعنی اس کا مقبول ومعزز بندہ۔ اضافت اضافت تشریفی ہے۔ جب بندہ کا تعلق اللہ کے ساتھ خاص تقرب وشرف کا دکھانا ہوتا ہے تو محاورۂ قرآنی میں عموما ایسے موقع پر ذکر (آیت) ” عبداللہ “۔ یا عبدنا یا (آیت) ” عبدہ “۔ کرکے لیا جاتا ہے۔
Top