Tafseer-e-Majidi - Maryam : 6
یَّرِثُنِیْ وَ یَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ١ۖۗ وَ اجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا
يَّرِثُنِيْ : میرا وارث ہو وَيَرِثُ : اور وارث ہو مِنْ : سے۔ کا اٰلِ يَعْقُوْبَ : اولادِ یعقوب وَاجْعَلْهُ : اور اسے بنا دے رَبِّ : اے میرے رب رَضِيًّا : پسندیدہ
جو میرا بھی واث بنے اور اولاد یعقوب کا بھی وارث بنے،6۔ اور اے پروردگار تو اسے پسندیدہ بنا دے
6۔ (علوم نبوت ومعارف ولایت میں اپنے اجداد اسرائیلی کی طرح) (آیت) ” یرثنی ویرث من ال یعقوب “۔ (وراثت سے یہاں مراد مال و دولت کی وراثت نہیں۔ حقائق عالیہ اور اخلاق فاضلہ کی میراث ہے اور انبیاء سے مال وجائداد کی وراثت تو چلتی بھی نہیں جیسا کہ حدیث صحیح میں وارد بھی ہوچکا ہے :۔ صحابیوں، تابعین، اکابر مفسرین، سب سے ارث کی تفسیر علوم نبوت و شریعت منقول ہے۔ اور لفظ ارث کا اطلاق نبوت پر بالکل جائز ہے۔ قال ابن عباس ؓ ویرث من ال یعقوب النبوۃ فقد اجاز اطلاق اسم المیراث علی النبوۃ فکذلک یجوزان یعنی بقولہ یرثنی یرث علمی (جصاص) انما ارادارت النبوۃ وعلیھا خاف ان تخرج من عقبہ (ابن العربی) یرثنی العلم ویرث من ال یعقوب النبوۃ وھو مروی عن مجاھد (کبیر) المراد بالارث ارث الشرع والعلم لان الانبیاء ولا تورث (کشاف) (آیت) ” ولیا “۔ ولی یہاں سب کا اتفاق ہے کہ ولد صلبی کے مفہوم میں ہے۔ (آیت) ” من لدنک “۔ یعنی بلااسباب عادی وظاہری کے نعمتیں جو بھی آتی ہیں، سب ہی اللہ ہی کے پاس سے آتی ہیں۔ یہاں من لدنک کی تصریح لانے سے مراد یہی ہے کہ بلاواسطہ اسباب عادی محض اپنی قدرت سے عطا کر۔ اعطنی من محض فضلک الواسع وقدرتک الباھرۃ بطریق الاختراع (روح) مرشد تھانوی (رح) نے یہاں سے دو نکتہ اخذ کیے ہیں، ایک یہ کہ اولاد صالح کی طلب رکھنا زہد کے منافی نہیں۔ دوسرے یہ کہ کسی ایسی چیز کا طلب کرنا جو اسباب بعید ہی سے پیدا ہوسکے ادب دعا کے منافی نہیں۔
Top