Tafseer-e-Majidi - Maryam : 7
یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ اِ۟سْمُهٗ یَحْیٰى١ۙ لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا
يٰزَكَرِيَّآ : اے زکریا اِنَّا : بیشک ہم نُبَشِّرُكَ : تجھے بشارت دیتے ہیں بِغُلٰمِ : ایک لڑکا اسْمُهٗ : اس کا نام يَحْيٰى : یحییٰ لَمْ نَجْعَلْ : نہیں بنایا ہم نے لَّهٗ : اس کا مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل سَمِيًّا : کوئی ہم نام
اے زکریا ہم تم کو بشارت دیتے ہیں ایک لڑکے کی اس کا نام یحییٰ ہوگا،7۔ ہم نے اس کے قبل کسی کو (اس کا) ہم نام نہیں بنایا،8۔
7۔ (اپنی نظر میں) یعنی وہ لڑکا علوم کا حامل بھی ہو اور ان پر عامل بھی۔ اے مرضیاعندک قولا وفعلا (روح) بعض عارفوں نے یہاں سے یہ نکتے پیدا کیے ہیں کہ طلب اولاد مستحب ہے اور اولاد کے حق میں دعائے خیروصلاح سنت انبیاء ہے۔ 8۔ (تمہاری ذات برادری میں) یہ جواب ہے جو حق تعالیٰ کی طرف سے حضرت زکریا کو فرشتوں کے واسطہ سے ملا، انجیل میں حضرت یحی (علیہ السلام) کی ولادت اور نام رکھے جانے کا ذکر ذرا تفصیل سے ہے :۔” اور ایشیع کے جننے کا وقت آپہنچا اور وہ بیٹا جنی اور اس کے پڑوسیوں اور رشتہ داروں نے یہ سن کر خدواند نے اس پر بڑی رحمت کی، اس کے ساتھ خوشی منائی اور آٹھویں دن ایسا ہوا کہ وہ لڑکے کا ختنہ کرنے آئے۔ اور اس کا نام اس کے باپ کے نام پر زکریا رکھنے لگے۔ مگر اس کی ماں نے کہاں کہ نہیں بلکہ اس کا نام یوحنا رکھا جائے، انہوں نے اس سے کہا کہ تیرے کنبہ میں کسی کا یہ نام نہیں اور انہوں نے اس کے باپ کو اشارہ کیا کہ تو اس کا کیا نام رکھنا چاہتا ہے۔ اس نے تختی منگا کے یہ لکھا کہ اس کا نام یوحنا ہے “ (لوقا۔ 1: 57۔ 62) (آیت) ” بغلم “۔ غلام کے معنی لڑکے کے علاوہ فرزند کے بھی ہیں اور یہی یہاں مراد ہیں۔ الغلام الولد الذکر (روح) بغلام اے بولد (ابن عباس ؓ (آیت) ” سمیا “۔ سمی کے ایک معنی تو یہی ’ ہم نام ‘ کے ہیں۔ چناچہ ائمہ تفسیر نے یہاں بھی یہی مراد لی ہے۔ لم یسم احد بیحیی قبلہ (کشاف، بیضاوی) وقال ابن عباس ؓ وقتادۃ والسدی وابن اسلم لم تسم قبلہ احدا بیحیی (بحر) وھو قول ابن عباس ؓ والحسن و سعید بن جبیر وعکرمۃ وقتادۃ (کبیر) اے شریکا لہ فی الاسم (روح) اور انجیل کی روایت بھی اسی کے موافق ہے۔ لیکن لغت ہی میں ایک دوسرے سمی، ” ہم صفت “ یا مثل، شبیہ ونظیر کا بھی پتہ چلتا ہے اور بعض اکابر لغت و اکابر تفسیر کے نزدیک وہی معنی یہاں ثابت ہیں۔ قال مجاھد وغیرہ سمیا اے مثلا ونظیرا (بحر) المراد بالسمی النظیر کمافی قولہ ھل تعلم لہ سمیا (کبیر) عن مجاھد ان سمیا بمعنی شبیھا وروی عن عطار وابن جبیر مثلہ اے لم نجعل لہ شبیھا (روح)
Top