Tafseer-e-Majidi - Maryam : 83
اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ تَؤُزُّهُمْ اَزًّاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اَنَّآ اَرْسَلْنَا : بیشک ہم نے بھیجے الشَّيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) تَؤُزُّهُمْ : اکساتے ہیں انہیں اَزًّا : خوب اکسانا
کیا آپ کو علم نہیں کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے جو ان کو خوب ابھارتے ہیں،117۔
117۔ (اور یہ بدبخت اپنی قوت ارادی سے کام نہ لے کر اس شیطانی اثر کو قبول کرتے رہتے ہیں) (آیت) ” ارسلنا “۔ ارسال یہاں بھیجنے کے معنی میں نہیں، مسلط کردینے کے معنی میں ہے اور یہ ارسال تمامتر تکوینی حیثیت سے ہوتا ہے۔ ارسلنا اے سلطنا (ابن عباس ؓ (آیت) ” تؤزھم ازا “۔ از کے معنی حیلہ یا تدبیر وتزویر سے اکسانے، بھڑکانے وابھارنے کے ہیں، اے تغربھم علی المعاصی وتھیجھم لھا بالوساوس والتسویلات (کشاف) وقال الضحاک تغربھم اغراء (تاج) گویا ضمنا یہ بھی معلوم ہوگیا کہ شیطان کو قوت صرف ترغیب، تدبیر وتزویر سے آمادہ کردینے کی حاصل ہے، مجبور کردینے کی نہیں، یہ ان کافروں کا بالکل اختیاری فعل ہے کہ اپنی قوت تمیز اور عقل سلیم سے کام نہ لے کر اپنے بدخواہ ازلی کے کہے میں آجاتے ہیں۔
Top