Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 116
وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ بَلْ لَّهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ
وَ : اور قَالُوْا : انہوں نے کہا اتَّخَذَ : بنا لیا اللہُ : اللہ وَلَدًا : بیٹا سُبْحَانَهٗ : وہ پاک ہے بَلْ : بلکہ لَهٗ : اسی کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَ الْاَرْضِ : اور زمین كُلٌّ : سب لَهٗ : اسی کے قَانِتُوْنَ : زیر فرمان
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے ایک بیٹا بنالیا ہے،416، پاک ہے وہ !417 ۔ اصل یہی ہے کہ اسی کی ملک ہے جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے،418 ۔ سب اسی کے حکم بردار ہیں۔419 ۔
416 ۔ یہ کہنے والے کون تھے ؟ مراد بہت سے اہل باطل لیے جاسکتے ہیں۔ لیکن خاص طور پر اشارہ اس گڑھے ہوئے مذہب تثلیت کی جانب ہے۔ جس کا نام ایک پیغمبر برحق کی جانب منسوب کرکے مسیحیت رکھ لیا گیا ہے۔ حالانکہ اس کے عقائد باطلہ سے (نعوذ باللہ) حضرت مسیح (علیہ السلام) کو کوئی نسبت نہیں۔ اتخذوا ولداکا صحیح ترجمہ ہے ” لے رکھا ہے ایک بیٹا “۔ ” بنا رکھا ہے ایک بیٹا “ یہاں مسیحیوں کا یہ قول نقل ہو رہا ہے کہ خدا کے ایک بیٹا ہے۔ بلکہ یہ کہ خدا نے ایک بیٹا بنا لیا ہے۔ اتخاذ ولد کا صاف مفہوم یہ ہے کہ خدا نے گویا کسی کو متبنی کرلیا ہے۔ “ قرآن مجید کی تلمیحات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے قرآن کے صدہا مقامات کی طرح یہاں بھی اس کی ضرورت ہے کہ نظر اہل باطل کے عقائد وخیالات پر ذرا گہری ہو۔ مسیحیوں کے ہاں ایک زبردست فرقہ Adoptioists کے نام سے گزرا ہے۔ ان کے مرکزی عقیدہ کے لیے اصطلاحی لفظ تبنیت Adoptionism کا ہے۔ عقیدہ کا خلاصہ یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) حلقۃ خدا نہیں۔ وہ خدا پیدا نہیں ہوئے، وہ خدا شروع سے بنے بنائے اور خود بخود نہیں ہیں۔ بلکہ اصلا وخلقۃ وہ انسان ہی تھے۔ البتہ اقنوم ثالثہ یعنی روح القدس کا فیضان ان پر شروع ہی سے ہونے لگا تھا۔ اس لیے وہ قدوسیت کے ایسے اوج کمال پر پہنچ گئے اور روح الہی ان کے اندر ایسی حلول کرگئی کہ اقنوم اول یعنی خدائے برترواعظم نے انہیں اپنا بیٹا قرار دے کر، اپنا متبنی بنا کر، شریک الوہیت کرلیا۔ اور اب وہ ربوبیت، مالکیت وغیرہ جملہ صفات الہی میں شریک وسہیم ہیں، اس عقیدہ کے وجود کی شہادت تاریخ میں 185 ء میں ملتی ہے آٹھویں عیسویں میں پاپائے روم نے اسے الحاد زندقہ قرار دیا۔ بارہویں صدی عیسوی میں اس نے پھر زور پکڑا اور پھر یہ لوگ زندیق قرار پائے۔ ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگیریز ی۔ آیت میں صاف اشارہ مسیحیت کی اس شاخ کی جانب ہے۔ بڑے سے بڑا محقق مفسر بھی بہر حال بندہ اور بشر ہی ہوتا ہے۔ کسی کی نظر سے کوئی پہلو رہ جاتا ہے کسی کی نظر سے کوئی۔ مسیحیت کے سلسلہ میں یہ خوب یاد رہے کہ مسیحی مذہب میں عقیدہ ابنیت کوئی ثانوی درجہ یا فرعی حیثیت نہیں رکھتا۔ مسیحیت کی روح اور جان یہی عقیدہ ہے۔ 417 ۔ (ہرقسم کی بشری رشتہ داریوں سے جو اس کے لیے ہر حال میں پست اور باعث توہین ہیں) تنبیہ ہے مسیحیوں کو کہ معاذ اللہ، خدا کو خدا بھی کہے جاتے ہو اور پھر اس کے لیے یہ بشری سطح والی رشتہ داریاں بھی مانے جاتے ہو ! الوہیت کے باب میں کتنا گھٹیا تخیل اور کیسا کریہہ نظریہ رکھتے ہو ! 418 ۔ مخلوق کا رشتہ اپنے خالق کے ساتھ صرف ملکیت ومملوکیت مطلقہ کا ہے۔ نہ کہ فرزندی ودلبندی وغیرہ خرافات کا۔ توحید کی صاف وسادہ تعلیم یہی ہے کہ حق تعالیٰ ان سارے امتیازات وتعینات سے پاک ہے جو اہل شرک نے اس کے لیے گڑھ رکھے ہیں۔ ضمنا آیت شرک کی دوسری قسموں پر بھی ضرب لگاتی جاتی ہے۔ ہر ہستی اللہ کی مملوک ہے، کوئی ہستی اس کی مملوکیت سے خارج نہیں اور ہر ہستی صرف اللہ ہی کی مملوک ہے یہ نہیں کہ کچھ ہستیاں اس کی مملوک ہوں اور کچھ کسی اور کی۔ 419 ۔ (اگر ارادہ نہیں تو جبلۃ واضطرار) اللہ کی تکوینی محکومی اور فرمانبرداری سے چارہ کسی کو بھی نہیں۔ (آیت) ” کل “ یعنی جمیع مخلوق، مومن و کافر، بلند وپست، کبیر وصغیر، زندہ وبیجان ، (آیت) ” قنتون “ سب اس کے آگے جھکے ہوئے، سب کی تقدیر اس کی مشیت سے وابستہ، اے منقادون لا یمتنع شیء منہم علی تکوینہ وتقدیرہ ومشیتہ (کشاف) منقادون لایمتنعون عن مشیتہ وتکوینہ (بیضاوی) قنوت کے بہترین معنی یہی کیے گئے ہیں کہ اپنے جسم کی شہادت سے اور زبان حال سے اللہ کی عبودیت وطاعت کا اقرار کیا جائے۔ واولی معانی القنوت والطاعۃ والاقرار اللہ عزوجل بالعبودیۃ بشھادۃ اجسامھم بما فیھا من اثارالصنعۃ (ابن جریر) بڑی یا چھوٹی، وحشی یا ترقی یافتہ کسی مخلوق کی مجال ہے جو اللہ کے بنائے ہوئے دن اور اللہ کی بنائی ہوئی رات کے چوبیس گھنٹوں کے علاوہ کوئی گھنٹہ، کوئی منٹ، کوئی لمحہ اپنے لیے پیدا کرسکے۔ بڑے سے بڑے ماہرین سائنس میں سے کس کے امکان میں ہے کہ اللہ کی مقرر کی ہوئی فضائے کائنات سے باہر، ایک گز، ایک فٹ، ایک انچ جگہ اپنے لیے تلاش کرسکے ؟ کون ایسا ہے جو اس کے خلق کیے قانون حرارت، برودت، رطوبت سے بےنیاز رہ سکے ؟ کون ایسا ہے جو اس کے باندھے ہوئے قانون کشش اجسام سے بغاوت کرسکے ! عدد وزن، مقدار کے جو ضابطے خدا نے مقرر کر رکھے ہیں۔ کس میں اتنی ہمت ہے کہ گنجائش ان سے عدول و انحراف کی پاسکے ؟۔ بڑے سے بڑے موجد، بڑے سے بڑے صناع کا کمال بجز اس کے کیا ہے کہ اس نے نظام تکوینی کے ضابطوں اور قاعدوں کی مزاج شناسی میں کمال پیدا کرلیا ہے۔ اور مسبب الاسباب کے حضور میں وہ دوسروں سے بڑھ کر بندہ قانت ہے ؟ (آیت) ” کل لہ قنتون “ اس میں رد آگیا ہر مشرک قوم کا کہ جن جن کو تم ابن اللہ یا دیوی یا دیوتا مانتے ہوے وہ اللہ کے شریک وسہیم وہمسر تو کسی حییت سے بھی کیا ہوتے سب کے سب اس کے محکوم ، ، اس کے مخلوق، اس کے قوائے تکوینی کے تابع ومسخر ہیں۔
Top