Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 115
وَ لِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ۗ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
وَلِلّٰہِ : اور اللہ کے لیے الْمَشْرِقُ : مشرق وَالْمَغْرِبُ : اور مغرب فَاَيْنَمَا : سو جس طرف تُوَلُّوْا : تم منہ کرو فَثَمَّ : تو اس طرف وَجْهُ اللہِ : اللہ کا سامنا اِنَّ اللہ : بیشک اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِیْمٌ : جاننے والا
اور اللہ ہی کا ہے مشرق (بھی) اور مغرب (بھی) ،411 ۔ سو تم جدھر کو بھی منہ پھیرو،412 ۔ اللہ ہی کی ذات ہے،413 ۔ اللہ بڑا وسعت والا ہے،414 ۔ بڑا علم والا ہے،415 ۔
411 ۔ (بہ حیثیت مخلوق وبہ حیثیت مملوک بھی) یعنی انھما لہ ملکا وخلقا (ابن جریر) للہ من لام اختصاص کا ہے۔ نحو میں لام جارہ کی کئی قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک لام اختصاص بھی ہے۔ یعنی مشرق ومغرب سب اسی کے ہیں۔ اللام لام الاختصاص اے ھو خالقھما وما لکھما (کبیر) امت محمدی جواب ساری دنیا کے لیے امت عادلہ بنا کر بھیجی جارہی تھی، لازمی تھا کہ اس کی مزکریت ویکجہتی کے لیے ایک قبلہ بھی ہو۔ اور وہ قبلہ اب خانہ کعبہ مقرر ہورہا تھا، اہل کتاب نے اس پر اعتراضات شروع کیے۔ یہ نقل اعتراض و جواب اعتراض کی تمہید ہے۔ المشرق والمغرب۔ دونوں سمتیں اور انہیں دو پر کیا موقوف ہے ہر سمت اور ہر جہت اللہ کے لیے یکساں ہے۔ وہ سب کا یکساں خالق ہے، حاکم ہے، مالک ہے۔ کسی خاص سمت میں کوئی بھی خاص تقدیس کوئی شائبہ الوہیت، کوئی شان حق نمائی موجود نہیں، مذاہب جاہلی کی تاریخ انسانی حماقتوں، جہالتوں، وہم پرستیوں کی ایک مسلسل تاریخ ہے۔ ایک مشترک گمراہی مشرک قوموں میں یہ رہی ہے کہ خدا چونکہ متمکن ہے اور مجسم ہے، اس لیے لازمی ہے کہ اس کی ہستی کسی نہ کسی متعین سمت یا جہت میں ہو اور اس تلبس کی بنا پر خود وہ سمت یا جہت مقدس ہے، مصری، ہندی، رومی تمام مشرک قوموں نے خدا کو کسی نہ کسی جہت میں فرض کرکے خود اسی جہت کو مقدس مانا ہے اور چونکہ سورج دیوتا کا مرتبہ مذاہب شرکیہ میں عموما اہم ومقدم رہا، اس لیے شاہ خ اور کے طفیل میں سمت مشرق ہی عموما مقدس سجھی گئی اور دنیا کے اکثر علاقوں میں پجتی رہی۔ مسلمان جس کی آنکھیں ہی توحید کے آغوش میں کھلی ہیں، اس کے خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ سمت وجہت جیسی خیالی چیز بھی قوموں کی معبود ہوسکتی ہے ! مشرکوں ہی کے اثر سے یہ سمت پرستی کا شرک اہل کتاب میں بھی سرایت کرگیا۔ اور مسیحی مذہب چونکہ عقائد و عبادات دونوں میں اپنے وقت کے رائج وشائع رومی مذہب ہی کی مثنی یا پر تو ہے اس لیے وہ تو کھلم کھلا مشرق پرستی میں مبتلا ہوگیا ! یہود جنہیں اپنی توحید پر ناز تھا وہ بھی تمامتر محفوظ نہ رہ سکے۔ بلکہ ان کے بعض فرقے تو پوری طرح اس صف میں آگئے۔ بعض قوموں نے مشرق کے جوڑ پر مغرب کے تقدس کا کلمہ پڑھنا شروع کردیا۔ انہوں نے دیکھا کہ مشرق اگر خطہ حیات ہونے کی محفوظ نہ رہ سکے۔ بلکہ ان کے بعض فرقے تو پوری طرح اس صف میں آگئے۔ بعض قوموں نے مشرق کے جوڑ پر مغرب کے تقدس کا کلمہ پڑھنا شروع کردیا۔ انہوں نے دیکھا کہ مشرق اگر خطہ حیات ہونے کی بنا پر مقدس ہے تو مغرب بھی خطہ موت ودیار ہلاکت ہے شاہ خ اور طلوع اگر ادھر سے ہوتا ہے تو روزانہ غروب اور فنا تو ادھر ہی ہوتا ہے۔ پھر اس کے تقدس کا بھی کیوں نہ قائل ہولیا جائے۔ چناچہ یہ دونوں سمتیں خوب پجتی رہیں۔ مشرق زیادہ اور مغرب اس سے کچھ کم، اصل انگریزی حوالوں کے لیے ملاحظہ ہوں حواشی تفسیر انگریزی، دنیا کی دنیا اس سمت پرستی کے شرک، مشرق پرستی اور مغرب پرستی کی ضلالت میں مبتلا تھی کہ توحید قرآنی نے ساری دنیا کے عقائد کو چیلنج کرکے اس مشرکانہ عقیدہ پر ضرب لگا کے ایک عالم کو چونکا دیا۔ قدیم مذاہب یہ آواز سن کر بھو چکے سے رہ گئے۔ 412 ۔ (دعا کے لیے، نماز کے لیے، یا کسی عبادت کی بھی غرض سے، اے مسلمانو ! ) خطاب اس امت سے ہورہا ہے جس کا کام ہی دنیا میں خدائے واحد کی پرستاری تھی، اور شرک اور ہر شائبہ شرک سے بیزاری۔ 413 ۔ یعنی وہ خدائے واحد جو ہر مکان، ہر ظرف کی قید سے پاک ہر سمت وجہت سے منزہ ہے، اس کی ذات پاک کی تجلیات ہر طرف ہیں۔ سب کہیں ہیں، جدھر بھی رخ کروگے جلوہ اسی کا پاؤگے۔ اس کی تجلیات کو کسی خاص جہت کے ساتھ محدود ومخصوص کرلینا عین جہل ہے۔ (آیت) ” وجہ “ لفظی معنی چہرہ کے ہیں، ثانوی معنی ذات کے ہیں، (آیت) ” وجہ اللہ “ کی ترکیب جب آئے گی، مراد ذات ہی سے ہوگی، اور وہی یہاں بھی مراد ہے۔ ربما عبرعن الذات بالوجہ (راغب) فثم ذاتہ (بیضاوی) قیل الوجہ بمعنی الذات جعل ھنا کنایہ عن علمہ واطلاعہ بما یفعل ھناک (روح) ۔ آیت میں پوری تردید آگئی عقیدہ تجسیم کی جس کے لیے انگریزی میں ایک لمبا سانام ، Anthropomorphism ہے ہمارے اکابر نے بھی آیت کو اسی معنی میں لیا ہے۔ الایۃ من اقوی الدلائل علی نفی التجیسم و اثبات التنزیہ (کبیر) ھذا یدل علی نفی الجھۃ والمکان عنہ تعالیٰ لاستھالۃ ذلک علیہ (ابن العربی) مسیحیوں کے ہاں آج تک ایک مذہبی اصطلاح Orientation شرق روی کی چلی آرہی ہے اور گرجے وغیرہ شرق رویہ ہی بنائے جاتے ہیں (آیت) ” فثم وجہ اللہ “۔ بعض صوفیہ نے کہا ہے کہ ہم بھی اسی طرح کائنات میں جس چیز پر بھی نظر ڈالتے ہیں انوار حق ہی کا جلوہ دیکھتے ہیں۔ 414 ۔ وہ تو خود ہی بےپایاں وسعتوں والا ہے، بڑی سی بڑی وسعت خود اس کے اندر شامل ہے۔ اسے بھلا کون اپنے اندر لے سکتا ہے ؟ اس کی سمائی کس بڑے سے بڑے ظرف ومکان میں ہوسکتی ہے ؟ ہر سمت اور ہر جہت میں گھر سکتا ہے۔ واسع باحاطتہ بالاشیاء (بیضاوی) 415 ۔ وہ اپنے اس علم کامل اور حکمت بالغہ کے لحاظ سے جو قبلہ چاہے مقرر کردے۔ اس کے مصالح وحکم کا احاطہ کون کرسکتا ہے ؟ وہ وحدت امت کے لیے تعیین قبلہ جب کرے گا مناسب ہی کرے گا۔ اس میں کسی جہت کی قد وسیت کو اصلادخل نہیں۔
Top