Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 117
بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
بَدِیْعُ : پیدا کرنے والا السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاِذَا : اور جب قَضٰى : وہ فیصلہ کرتا ہے اَمْرًا : کسی کام کا فَاِنَّمَا : تو یہی يَقُوْلُ : کہتا ہے لَهٗ كُنْ : اسے ہوجا فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتا ہے
(وہ) موجد ہے آسمانوں اور زمین کا،420 ۔ اور جب کسی کام کا کرنا ٹھہرا لیتا ہے،421 ۔ تو بس اتنا ہی اس سے کہتا ہے (کہ) ہوجا،422 ۔ بس وہ ہوجاتا ہے،423 ۔
420 ۔ (اور اسی طرح ساری مخلوق کا نیز ان سب سے سابق ومتقدم بھی ہے) بصیر یہاں مبصر کے معنی میں اور بدیع یہاں مبدع کے معنی میں ہے جیسے الیم مولم کے معنی میں اور سمیع مسمع کے معنی میں آتا ہے۔ البدیع یقال للمبدع (راغب) اے مبدعھا وانما ھو مفعل صرف الی فعیل کما صرف المؤلم الی الیم (ابن جریر) اور مصدر ابداع کے معنی ہیں نیست سے ہست کرنا۔ عدم محض سے وجود میں لانا بغیر کسی مثال یا نمونہ کے اور بغیر کسی سابق مادہ یا ہیولی کے الابداع انشاء صنعۃ بلااحتذاء واقتداء (راغب) واذا استعمل فی اللہ تعالیٰ فھو ایجاد الشیء بغیر الۃ ومادۃ ولا زمان ولا مکان (راغب) (آیت) ” بدیع “ وہ ہے جو نہ کسی آلہ کا محتاج ہو نہ کسی مال مسالہ کا۔ نہ مقام ومکان کا پاند نہ زمان ووقت سے مقید محتاج نہ کسی نمونہ کا، نہ استاد کا، وہ صناع ہے، کاریگر نہیں، اصلی اور حقیقی معنی میں خالق اور موجد ہے۔ بغیر کسی کی اعانت وشرکت کے وجود میں لانے والا۔ معنی المبدع المنشیء ولالمحدث مالم یسبقہ الی انشاء مثلہ واحداثہ احد (ابن جریر) ھو بارءھا وخالقھا وموجدھا من غیر اصل احتذاھا علیہ (ابن جریر) (آیت) ” بدیع “ کا لفظ ان مشرک قوموں کے رد میں ہے جو خدا کو محض صانع کی حیثیت دیتے ہیں اور روح یا مادہ یا دونوں کو کسی نہ کسی وجہ میں اس کا شریک وسہیم رکھتے ہیں گویا مادہ پہلے سے موجود ہی تھا وہ قدیم وغیر حادث ہے، یا روح بھی اس کے ساتھ ساتھ قدیم وغیر حادث ہے۔ اب خدا نے صرف اتنا کیا کہ ایک اعلی درجہ کے کیمسٹ کی طرح ان میں باہمی ترکیب وترتیب سے نئی نئی صورتیں نمودار کردیں۔ ابداع کا لفظ ان سارے مشرکانہ تخیلات کی تردید کے لیے کافی ہے۔ تقدم ذاتی کے علاوہ تقدم زمانی بھی تمام صفات کمال کی طرح اس کی ذات کے لیے ثابت ہے وہ سب پر زمانہ بھی مقدم ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ صرف وہ تھا اور کچھ بھی نہ تھا۔ نہ جہات نہ اعیان۔ انہ تعالیٰ خالق الجھات کلھا والخالق متقدم علی المخلوق لا محالۃ (کبیر) فقد کان الباری تعالیٰ قبل خلق العالم منزھا عن الجھات والاعیان (کبیر) 421 ۔ (محض اپنے ارادہ ومشیت سے اور محض اپنی حکمت مطلقہ کے متقضی کی حیثیت سے) ومعنی قضی ھنا اراد (بحر) حکم بانہ یفعل شیئا (کبیر) اے حکم۔۔ (مدارک) قرآن کا خدا صاحب ارادہ ذی حیات، صاحب اقتدار خدا ہے۔ یونان کے فلسفیوں اور بعض دوسرے مشرکوں کے خدا کی طرح صرف ایک بیجان، مسلوب الارادہ علت العلل یا آخری سبب نہیں۔ 422 ۔ یعنی عدم محض سے وجود میں آجا، نیست سے ہست ہوجا، (آیت) ” یقول “ کہتا ہے “ کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری آپ کی طرح یہ دو حرفی لفظ (آیت) ” کن “ بولتا ہے۔ لفظ وحروف تو خود ہی حادث ہیں اور نہ حق تعالیٰ کا تلفظ زبان، ہونٹ یا اعصاب کا محتاج ہے۔ بندوں کی سمجھ کے لائق آخر اس کے سوا قریب سے قریب پیرایہ بیان اور اسلوب تعبیر اور کیا اختیار کیا جائے۔ اے بروں از وہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من مقصود صرف اس قدر ہے کہ ادھر حق تعالیٰ کا ارادہ ہوا اور ادھر معا اور بلاتوسط وتوقف اس کا ظہور عملا ہوگیا۔ وھذا مجاز عن سرعۃ التکوین والتمثیل اذلا قول ثم (مدارک) قلنا ان کن لیس بامر حقیقۃ اذلا فرق بین ان یقال واذا قضی امرا فانما یکونہ فیکون وبین ان یقال فانما یقول لہ کن فیکون (مدارک) لیس المراد بہ حقیقۃ امر والمتثال بل تمثیل حصول ماتعلقت بہ ارادتہ بلامھلۃ لطاعۃ المامور المطیع بلا توقف (بیضاوی) (آیت) ” لہ “ میں ضمیر اس چیز کی جانب سے جس کا وجود ابھی خارج میں ہوا لیکن علم الہی میں تو بہرحال موجود ہی ہے۔ اور امر الہی کے اعتبار سے مامور و موجود میں کوئی فرق ہی زمانی حیثیت سے نہیں۔ ہر مامور کے معنی موجود ہونے کے ہیں۔ اور ہر موجود کے معنی مامور ہونے کے ہیں۔ امرہ للشئی بکن لایتقدم الوجود ولا یتاخر عنہ فلایکون لالشئی مامورا بالوجود الاوھو موجود بالامرولا موجودا بالامر الا وھو مامور بالوجود (ابن جریر) اطلق علی تعلق الارادۃ الالھیۃ بوجود الشئی من حیث انہ یوجبہ (بیضاوی) ھو بمنزلۃ الموجود اذھو عندہ معلوم (بحر) المخاطب ھو ذلک الشی الموجود فی علم اللہ تعالیٰ المامور بہ الدخول فی الوجود الخارجی (گازرونی) ۔ (آیت) ” کن فیکون “ کان یہاں تامہ ہے، ناقصہ نہیں۔ یعنی ” ہوجا “ وجود میں آجانے کے مرادف ہے۔ فلاں چیز ہوجا یا بن جا کے مرادف نہیں، من کان التامۃ بمعنی احدث فیحدث (بیضاوی) 423 ۔ یعنی بس وہ شے معا وجود میں آجاتی ہے۔ اس کے ہونے میں نہ کچھ دیر لگتی ہے نہ اس کے لیے کسی اعانت وساطت شر کی کی ضرورت ہوتی ہے۔ المراد من ھذہ الکلمۃ سرعۃ نفاذ قدرۃ اللہ تعالیٰ فی تکوین الاشیاء (کبیر) یہ بھی گویا مشرکین ہی سے خطاب ہے کہ تم عمل تخلیق خداوندی کو سمجھے کیا ہو ؟ اس میں تو بجز ارادہ الہی کے اور کسی چیز کی شرکت کا گزر ہی نہیں اور اس سے تمہارے شرک کی بنیاد ہی منہدم ہوجاتی ہے۔
Top