Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 133
اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَآءَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ١ۙ اِذْ قَالَ لِبَنِیْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِیْ١ؕ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآئِكَ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا١ۖۚ وَّ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ
اَمْ كُنْتُمْ : کیا تم تھے شُهَدَآءَ : موجود اِذْ حَضَرَ : جب آئی يَعْقُوْبَ : یعقوب الْمَوْتُ : موت اِذْ : جب قَالَ : اس نے کہا لِبَنِيهِ : اپنے بیٹوں کو مَا : تم کس کی تَعْبُدُوْنَ : عبادت کرو گے مِنْ بَعْدِیْ : میرے بعد قَالُوْا : انہوں نے کہا نَعْبُدُ : ہم عبادت کریں گے اِلٰهَکَ : تیرے معبود کی وَاِلٰهَ : اور معبود اٰبَائِکَ : تیرے اٰبا اِبْرَاهِيْمَ : ابراہیم وَاِسْمَاعِيْلَ : اور اسماعیل وَاِسْحَاقَ : اور اسحٰق اِلَٰهًا : معبود وَاحِدًا : واحد وَنَحْنُ : اور ہم لَهٗ : اسی کے مُسْلِمُوْنَ : فرمانبردار ہیں
ترجمہ بھلا اس وقت تم کیا موجود تھے جب یعقوب (علیہ السلام) کو موت آپہنچی،479 ۔ اور اس وقت انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے ؟ ف، 480 ۔ وہ بولے ہم عبادت کریں گے گے آپ کے اور آپ کے اپ دادوں ابراہیم (علیہ السلام) اور اسمعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) کے معبود کی (اس) معبود واحد کی اور ہم تو اس کین حکم بردار ہیں،481 ۔
479 ۔ (آیت) ” حضریعقوب الموت “ یعنی وقت موعود قریب آگیا۔ اور آپ کو علامات وآثار اس کے محسوس ہونے لگے۔ یہ مراد نہیں کہ خود موت ہی آپ پر طاری ہوگئی۔ کنی بالموت عن مقدماتہ لانہ اذا حضر الموت نفسہ لا یقول المتحضر شیئا (بحر) قرآن مجید ہی میں ایک اور دوسری جگہ ہے۔ (آیت) ” ویاتیہ الموت من کل مکان وما ھوبمیت “ یہاں بھی موت سے مراد موت کے دواعی واسباب ہی لیے گئے ہیں۔ (آیت) ” ام کنتم شھدآء “ خطاب اہل کتاب سے ہے اور استفہام میں لہجہ زجر شامل ہے۔ معنی الاستفہام ھھنا الزجر والتوبیخ وھو فی معنی المنفی (بحر) یعنی تم جو واہیات خرافات حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی جانب منسوب کررہے ہو تو تمہارا اسی وقت وجود ہی کہاں تھا ؟ صحیح واقعات وہ ہیں جو قرآن بیان کررہا ہے۔ 480 ۔ (آیت) ” من بعدی۔ یعنی میری وفات کے بعد، مضاف محذوف ہے۔ من بعدی اے من بعد موتی (ابوسعود) حضرات انبیاء کو زندگی کی طرح اپنے آخر وقت میں بھی سب سے مقدم فکر دین ہی کہ ہوئی ہے۔ 481 ۔ یعنی ہم سب اس پر اسلام لاچکے ہیں “ توریت موجودہ کے اوراق تو اس اہم اور ضروری تذکرہ سے کسی مصلحت سے خاموش ہیں۔ البتہ احبار یہود کا یہ قول نقل ہو کر پہنچا ہے کہ۔۔۔” یعقوب نے اپنی وفات سے قبل اپنے بیٹوں کو یہ تین احکام دیئے ( 1) بت پرستی نہ کرنا (2) خدا کی بےحرمتی نہ کرنا (3) میرے جنازے کو کوئی کافر ہاتھ نہ لگانے پائے “۔ (جیوش انسائیکلوپیڈیاجلد 7 صفحہ 24) روایات و حکایات کی جو دوسری کتابیں ہیں ان میں صراحت اس سے بڑھ کر ملتی ہے :۔ ” یعقوب نے اپنے بیٹوں سے کہا۔۔ مجھے اندیشہ ہے کہ تم میں سے کوئی بت پرستی کا میلان رکھتا ہے۔ اس کے جواب میں بارہ بیٹوں نے کہا۔” سن اے اسرائیل، اے ہمارے باپ، ہمارا خدا وہی خدائے لم یزل ہے۔ جس طرح تیرا دلی ایمان ایک خدا پر ہے اسی طرح ہم سب کا دلی ایمان اسی ایک خدا پر ہے۔ (گنزبرگ کی قصص یہود جلد 2 صفحہ 14 1) (آیت) ” ابآئک۔ اسمعیل (علیہ السلام) یعقوب (علیہ السلام) کے بڑے چچا (یابابا) تھے۔ فرزندان یعقوب نے کما سعادت مندی سے ان کا شمار بھی آبائے یعقوب (علیہ السلام) میں کیا، جیسا کہ اردو محاورہ میں بھی باپ چچا کو ایک ہی حکم میں رکھا جاتا ہے۔ حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے آپ ﷺ کے چچا کو ایک ہی حکم رکھا جاتا ہے۔ حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس ؓ کے لیے یہی لفظ اب آیا ہے۔ ھذا بقیۃ ابائی یعنی میرے بڑوں یا بزرگوں میں اب یہی باقی ہیں۔ (آیت) ” اسحق “ یہ نام پہلی بار آیا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دوسرے صاحبزادہ تھے حرم اول حضرت سارہ کے بطن سے۔ سال ولادت غالبا 2060 ق، م۔ سال وفات غالبا 1880 ق، م۔ عمر شریف توریت میں 180 سال درج ہے۔ یہ بھی درج ہے کہ آپ کی ولادت کے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر 100 سال تھی۔ آپ کے بستر مرگ کا منظر قصص الیہود میں یوں دکھایا گیا ہے :۔” جب اسحاق نے دیکھا کہ ان کا وقت موعود آپہنچا، تو انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو اپنے پاس بلایا، اور کہا کہ میں تمہیں خدائے تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں۔ جس کی صفات علی، عظیم، قیوم، عزیر ہیں۔ اور جو آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی ہر شے کا خالق ہے کہ تم خوف اسی کا رکھنا اور عبادت اسی کی کرنا “۔ (جلد اول صفحہ 4 16)
Top