Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 22
الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً١۪ وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ١ۚ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
الَّذِیْ جَعَلَ : جس نے بنایا لَكُمُ : تمہارے لئے الْاَرْضَ : زمین فِرَاشًا : فرش وَالسَّمَآءَ : اور آسمان بِنَاءً : چھت وَاَنْزَلَ : اور اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مَاءً : پانی فَاَخْرَجَ : پھر نکالے بِهٖ : اس کے ذریعے مِنَ : سے الثَّمَرَاتِ : پھل رِزْقًا : رزق لَكُمْ : تمہارے لئے فَلَا تَجْعَلُوْا : سو نہ ٹھہراؤ لِلّٰہِ : اللہ کے لئے اَنْدَادًا : کوئی شریک وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : اور تم جانتے ہو
(وہ) وہی (پروردگار) ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو ایک فرش اور آسمان کو ایک چھت بنادیا ہے۔65 ۔ اور آسمان سے پانی اتارا66 ۔ پھر تمہارے لئے غذا کو پھل پیدا کئے67 ۔ سو تم اللہ کے ہمسر نہ ٹھہراؤف 68 ۔ تم جانتے (بوجھتے) بھی ہو۔69 ۔
65 ۔ آیت کے اس ٹکڑے کی جان یا اصل روح (آیت) ” جعل لکم “ ہے۔ مقصود زمین یا آسمان کی ہیئت بیان کرنا، یا ان کی ارضیاتی یا فلکیاتی ماہیت بیان کرنا کسی درجہ میں بھی نہیں۔ بیان صرف یہ کرنا ہے کہ زمین ہو یا آسمان، کوئی بھی از خود نہیں بن گئے ہیں، بلکہ جو کچھ اور جیسے بھی کچھ ہیں، اللہ کے بنائے ہوئے، اور اسی قادر مطلق کے زیر فرمان ہیں۔ (آیت) ” ربکم الذی جعل لکم الخ “ دوسری تعلیم ساتھ ہی ساتھ یہ ملی، کہ زمین و آسمان انسان کے لیے خلق ہوئے ہیں، انسان زمین و آسمان کے لیے خلق نہیں ہوا ہے۔ مقصود ومطلوب انسان ہے۔ زمین و آسمان دونوں، باذن الہی، اسی خلیفۃ اللہ کے خادم ہیں، پھر یہ کیسی شدید حماقت ہے کہ انسان اپنے ان خدائی خادموں کے آگے جھکنے لگے، اور الٹا انہیں کو معبود قرار دے کر ان کی پرستش کرنے لگے، ارض ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کے قدموں کے نیچے ہو۔ وکل ما سفل فھو ارض (تاج) اسی طرح سماء ہر اس بلند چیز کو کہتے ہیں جو انسان کے سر کے اوپر ہو۔ السماء کل ما علاک (تاج) کل ما علا فاظل قیل لہ سماء (قرطبی) ارض میں اصل تخیل پستی کا ہے۔ اور انسان کے تعلق میں اس کا اصلی وصف فراش یا مایفرش کا ہے۔ یعنی وہ ایسی چیز ہے جو بچھادی گئی ہے۔ ہمارے لیے فرش ہے یا ایسی ٹھوس اور ہموار چیز ہے جس پر ہم قدم رکھ سکتے ہیں، چل سکتے ہیں، بیٹھ سکتے ہیں، لیٹ سکتے ہیں، نہ کہ کوئی ایسی کھردری یا پلپلی چیز ہے جس پر بیٹھنا، چلنا، قدم رکھنا ممکن ہو، یہ زمین اپنی ہیئت کے لحاظ سے گول ثابت ہو یا چپٹی، بہرحال وبہر صورت اس کا تعارف انسان و انسانیت کے سلسلہ میں اس سے بہتر ممکن نہیں کہ وہ انسان کے لیے فرش کا کام دے رہی ہے، اور اس کام پر اسے اللہ ہی ہی نے لگایا ہے چناچہ قرآن نے یہاں اس کا یہی وصف بیان کردیا، اسی طرح سماء میں اصل تخیل بلندی کا ہے۔ زمین جس طرح بطور فرش ہمیں نیچے سے سنبھالے ہوئے ہے، آسمان اسی طرح ہمیں اوپر سے ڈھانپے ہوئے ہے، ظاہر ہے کہ جو محسوس ومرئی چیز اس قدر بلند ہے کہ بڑے بڑے بلند سیاروں کی بلندیاں، اونچے سے اونچے پہاڑوں کی چوٹیاں، پرندوں اور طیاروں کی بڑی سے بڑی بلند پروازیاں، سب اس کے اندر سما جائیں، اور سب اس سے پست ہی رہیں، تو چھت کا اطلاق اس پر بھی نہ ہوگا تو اور کس پر ہوگا ؟ زمین کی طرح آسمان کی ہیئت سے قرآن مجید یعنی دنیا کے اس اخلاقی اور روحانی نظام نامہ کو کوئی تعلق نہیں، آسمان کوئی ٹھوس مادی جسم رکھتا ہے، یا محض خلا، منتہائے نظر ہے، اس قسم کے مسائل کا تعلق تمام تر دنیوی تجربی علوم سے ہے قرآن کو تو آسمان کا صرف وصف بیان کرنا تھا جو سلسلہ الہی وخلافت الہی سے تعلق رکھتا ہے، اور یہی اس نے کردیا زمین و آسمان کی پوجا ہر مشرک، جاہل، ” متمدن “ قوم نے کی ہے۔ اور آسمان کو تو بہت بڑا دیوتا یونانیوں سے لے کر ہندیوں تک سب نے مانا ہے قرآن کی اصلی زد انہیں مشرکانہ تخیلات اور جاہلی ادہام پر آکر پڑتی ہے۔ 66 ۔ (اسی معبود واحدوبرحق اور اسی خالق یکتا ومطلق نے، نہ کہ کسی دیوی دیوتا نے) مقصود اس حقیقت کی تعلیم ہے کہ آسمان اور بارش سب خدائے واحد ہی کی مخلوق ومصنوع ہیں، نہ کوئی آکاش دیوتا ہیں، نہ کوئی اندر دیوتا اور نہ کوئی Father.Zeus بلکہ یہ کلدانیوں، مصریوں، ایرانیوں، ہندیوں، یونانیوں، رومیوں کے سب گڑھے ہوئے خرافات ہیں۔ آسمان اور بارش کی پرستش دنای سے بالکل ختم اب بھی نہیں ہوئی ہے، ایشاء، افریقہ، امریکہ تینوں براعظموں کے خدا معلوم کتنے گوشوں میں اب بھی یہ شرک جاری ہے۔ لفظ سماء کے معنی اوپر کے حاشیہ میں ابھی گزر چکا ہے کہ بہت وسیع ہیں۔ اس لیے سماء سے پانی کا اترنا، بادل سے پانی کے اترنے، بخارات کے منجمد ہونے اور پھر گرمی پاکر برس پڑنے، یا اور اسی طرح کے درمیانی واسطوں کے ہرگز منافی نہیں۔ 67 (اسی معبود واحد اور خالق یکتا نے، نہ کہ کسی اور دیوی دیوتا نے) خدا جانے کتنی مشرک قومیں الگ الگ دیوی دیوتا، زراعت کے، نباتات کے، پھل پھلاریوں کے مان چکی ہیں۔ قرآن مجید کا کام مسائل طبعیات، فلکیات، جغرافیہ طبعی وغیرہ کی تعلیم دینا نہیں، بلکہ ان عالمگیر مشرکانہ عقائد اور جاہلی تخیلات کی تردید ہے۔ کائنات میں جو کچھ ہے یا جو کچھ ہورہا ہے وہ نہ از خود اور بےسبب ہے اور نہ کسی اور کی قوت سے ہورہا ہے۔ تمام تر قادر مطلق ہی کی کارفرمائی کا ثمرہ ہے۔ بہ یعنی پانی کے واسطہ یا ذریعہ سے المعنی انہ جعل الماء سببا فی خروجھا ومادۃ لھا (کشاف) پانی کو جو دخل عظیم ہر قسم کی زمینی پیداوار اور نباتات میں ہے محتاج بیان نہیں۔ 68 (کسی کو کسی حیثیت سے بھی) خلیفۃ اللہ جب کبھی اپنے مقام و مرتبہ کو بھول کر پستی میں گرا ہے تو اس نے اپنا سر جھکایا اور ماتھا ٹیکا ہے درختوں کے آگے، ان کے پھلوں کے آگے، بارش کے دیوتا کے آگے، زمین کے آگے، آسمان کے آگے، قرآن مجید اسی حماقت وسخافت پر اسے تنبیہ کررہا ہے۔ (آیت ” فلاتجعلوا “ میںسببیہ ہے، یعنی جس نے تمہیں ان نعمتوں کے ساتھ پیدا کیا، وہ اسی لائق ہے کہ کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ (آیت) ” اندادا “۔ ند عربی میں کہتے ہیں مثل ومشابہ کو بھی، اور مخالف ومد مقابل کو بھی۔ الندالمثل والنظیر وقال الاخفش الندالضد والشبہ (تاج) چناچہ انداد کے معنی اضداد اور اشباہ دونوں کیے گئے ہیں۔ (تاج) لفظ کی جامعیت میں نکتہ یہ ہے کہ شرک دنیا میں دونوں قسموں کا مروج رہا ہے۔ بہت سی قوموں نے اپنے دیوتاؤں کو محض ایک خدائے اصغر یا ماتحت خدا تسلیم کیا ہے، اور مجوس نے اہرمن کو یزدان کے حریف ومدمقابل کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ 69 (اپنے الہام فطری اور عام فہم بشری کی بنا پر، کہ سب کا حاکم، سب کا خالق بس وہی ایک ہے) اتنی بصیرت، جو توحید تک پہنچا دے، ہر قلب بشری میں ودیعت رکھ دی گئی ہے۔ بشرطیکہ غلط تعلیم وتربیت اور ناقص ماحول اس فطرت ہی کو مسخ نہ کرڈالے۔ وانتم تعلمون انی صانع ھذہ الاشیاء (ابن عباس ؓ انکم لکمال عقولکم تعلمون ان ھذہ الاشیاء لا یصح جعلھا اندادا للہ تعالیٰ (کبیر)
Top