Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 23
وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ١۪ وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو فِیْ : میں رَيْبٍ : شک مِمَّا : سے جو نَزَّلْنَا : ہم نے اتارا عَلَىٰ عَبْدِنَا : اپنے بندہ پر فَأْتُوْا : تولے آؤ بِسُوْرَةٍ : ایک سورة مِنْ ۔ مِثْلِهِ : سے ۔ اس جیسی وَادْعُوْا : اور بلالو شُهَدَآءَكُمْ : اپنے مدد گار مِنْ دُوْنِ اللہِ : اللہ کے سوا اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
اور اگر تم اس کتاب ہی کے بارے میں شک میں ہو70 ۔ جو ہم نے اپنے بندہ پر اتاری ہے71 ۔ تو کوئی ایک سورت اس جیسی تم بھی بنا لاؤف 72 ۔ اور اپنے حمایتیوں کو بھی اللہ کے مقابلے میں بلالوف 73 ۔ اگر تم سچے ہو74 ۔
70 ۔ (یعنی اس کے کلام الہی ہونے کے باب میں اے کافرو اور منکرو ! ) خطاب یہاں (آیت) ” یایھا الناس “ کے تحت میں ساری دنیا سے ہورہا ہے، صرف اہل عرب یا قریش سے نہیں۔ ارشاد ہورہا ہے کہ اگر تمہارے خیال میں یہ کلام الہی نہیں، تو یقیناً ایک انسانی تصنیف ہوگی۔ اور جب ایک انسان ایسی تصنیف پر قادر ہے تو دوسرا بھی ہوسکتا ہے، چہ جائیکہ لائق وفائق انسانوں کا ایک پورا مجمع ! کلمہ اسلام کے اجزائے ترکیبی دو ہیں، ایک توحید باری، دوسرے رسالت محمدی ﷺ ۔ توحید کا بیان اوپر کی دو آیتوں میں ہوچکا، اب دعوت تصدیق رسالت کی دی جارہی ہے۔ 71 ۔ (جن کا نام محمد ﷺ ہے) سیاق وموقع ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے خاص قرب واختصاص کے ہیں ! نہ خدا کے بیٹے اور اکلوتے بیٹے، نہ خدا کے مثل، نہ خدا کے بروز یا اوتار، نہ خدا کے وزیر یا مشیر، بلکہ محض بندے ! توریت میں ” خداوند کے خادموں “ کا لقب ایسے ہی اعزاز واکرام کے موقع پر آیا ہے، اور ابراہیم نبی، اسحاق نبی اور یعقوب (علیہ السلام) نبی کو خداوند کا خادم ہی ٹھہرایا ہے۔ (آیت) ” نزلنا “ یعنی جس کلام کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے بہ تدریج حسب ضرورت ومصلحت اتارا ہے۔ شک وتردد کا ایک بڑا سبب یہی نزول تدریجی تھا۔ منکرین کہتے تھے کہ جس طرح اور شاعر سوچ سوچ کر شعر کہتے ہیں، یہ ” رسول اللہ ﷺ بھی وقفوں کے ساتھ اسے گڑھتے رہتے ہیں۔ خدائی کلام ہوتا تو ایک بارگی سب کا سب نہ آجاتا (مظہری) (آیت) ” عبدنا “ سے یہ بات بھی صاف ہوگئی کہ آپ عبدیت میں کامل اور احکام الہی کے پورے پورے مطیع وفرمانبردار تھے (مظہر ی) ۔ 72 (معانی کی بلندی، مطالب کی جامعیت، مضامین کی ندرت کے لحاظ سے) قرآن مجید اپنی زبان کی فصاحت اور حسن انشاء کے لحاظ سے بھی یقیناً بےنظیر ہے، جیسا کہ عرب کے بڑے بڑے ماہرین ادب تسلیم کرچکے ہیں، لیکن یہاں جو تحدی کی جا رہی ہے اس کا مخاطب (آیت) ” یایھا الناس “ کے ماتحت سارا عالم ہے، صرف قریش یا اہل عرب نہیں، اس لیے قرآن مجید کو یہاں صرف انشاء وفصاحت تک محدود رکھنا اس کے عام وعالمگیر چیلنج کو محدود کردیتا ہے۔ قرآن نے اپنی حقیقت خود یہ بیان کردی ہے کہ وہ (آیت) ” ھدی للمتقین “ کتاب ہدی ہے۔ یعنی انفرادی واجتماعی دونوں زندگیوں کا جامع نظام نامہ، مکمل، ہمہ گیر وہرجہتی دستورالعمل، اس کے علاوہ اس کی اور جتنی حیثیتیں ہیں، تبعی وضمنی ہیں، وہ یہاں پیش اپنے اسی سب سے بڑے وصف کو کررہا ہے، اور پکار کے کہہ رہا ہے کہ جو ہدایتیں اور بصیرتیں میرے ایک ایک سورة کے اندر موجود ہیں، اب اگر تم اپنی متحدہ کوشش اور جدوجہد سے بھی اس کے مقابلہ کی کوئی چیز پیش کرسکتے ہو تو لاؤ دکھاؤ۔ (آیت) ” من مثلہ “ میں مثلیت کی تفسیر پر بہترین روشنی خود قرآن مجید ہی سے پڑتی ہے۔ (آیت) ” قل فاتوابکتب من عنداللہ ھو اھدی منھما اتبعہ ان کنتم صدقین (قصص۔ آیت 49) (آیت) ” ھواھدی “ کے ایجاز میں سب کچھ آگیا۔ (آیت) ” من مثلہ “ کی تفسیر مفسرین کے اقوال کثرت سے مثلہ فی البلاغۃ اور حسن نظم کے منقول ہوئے ہیں، لیکن اعجاز من جہۃ المعنی کا پہلو بھی اہل تحقیق سے چھوٹنے نہیں پایا ہے۔ یعنی مثل ھذا القران حقا وصادقا لا باطل فیہ ولا کذب (ابن جریر، عن قتادہ) اور امام رازی (رح) نے اپنی تفسیر کبیر میں متعدد پہلو اختیار کیے ہیں۔ (آیت) ” من مثلہ “ میں من بعض نے کہا ہے تبعیض کے لیے ہے بعض نے کہا ہے تبیین کے لیے ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ زائد ہے۔ من للتبعیض اوللتبیین وزائدۃ عندالاخفش (بیضاوی) (آیت) ” بسورۃ “ یعنی پورا قرآن نہ سہی، اس کا نصف یا ثلث بھی نہیں۔ اس کی کسی ایک سورة ہی کے برابر تم تصنیف کردیکھو ! لفظ سورة پر حاشیہ شروع میں گزر چکا ہے۔ 73 ۔ (آیت) ” شھدآء کم من شھدآء “ سے عموما، مراد حامیوں اور ناصروں سے لی گئی ہے، یعنی اعوانکم ما انتم علیہ (ابن جریر، عن ابن عباس ؓ معناہ اعوانکم ونصراء کم (قرطبی) المراد من الشھدآء اکابرھم او من یوافقھم فی انکار امر محمد (علیہ السلام) (کبیر) لیکن اگر (آیت) ” شھدآء “ کے وہی لفظی معنی گواہ کے رکھے جائیں جب بھی مراد یہ ہوگی کہ ان لوگوں کو بھی بلا دیکھو، جو تمہارے اس دعوی کی کہ تم نے کسی قرآنی سورت کا جواب لکھ لیا ہے تصدیق کردیں۔ اے قوم یشھدون لکم (ابن جریر، عن مجاہد) 74 ۔ (اپنے اس زعم و گمان میں کہ قرآن انسانی دماغ کی پیداوا رہے) قرآن کا سیدھا سادہ دعوی یہ ہے کہ وہ انسان کا نہیں، خدا کا کلام ہے۔ اور اپنے اس دعوی پر دلیل اس نے کیسی قطعی، اور عوام و خواص دونوں کی سمجھ میں آجانے والی یہ پیش کردی ہے کہ اگر کوئی اسے امکان بشری کے اندر سمجھتا ہے، تو ذرا اس کا ادنی اور ہلکا نمونہ بھی سب کی متحدہ کوشش سے پیش کردکھائے ! قرآن کے چیلنج کو ساڑھے تیرہ سو سال سے اوپر ہی ہوچکے ہیں۔ اور دنیا کے کتب خانے اس کتاب سازی کے عہد میں، قرآن کے برابر کیا معنی تقریبا برابر کتاب سے بھی یکسر خالی ہیں !
Top