Tafseer-e-Majidi - Al-Anbiyaa : 79
فَفَهَّمْنٰهَا سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ كُلًّا اٰتَیْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًا١٘ وَّ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَ الطَّیْرَ١ؕ وَ كُنَّا فٰعِلِیْنَ
فَفَهَّمْنٰهَا : پس ہم نے اس کو فہم دی سُلَيْمٰنَ : سلیمان وَكُلًّا : اور ہر ایک اٰتَيْنَا : ہم نے دیا حُكْمًا : حکم وَّعِلْمًا : اور علم وَّسَخَّرْنَا : اور ہم نے مسخر کردیا مَعَ : ساتھ۔ کا دَاوٗدَ : داود الْجِبَالَ : پہار (جمع) يُسَبِّحْنَ : وہ تسبیح کرتے تھے وَالطَّيْرَ : اور پرندے وَكُنَّا : اور ہم تھے فٰعِلِيْنَ : کرنے والے
سو ہم نے اس فیصلہ کی سمجھ سلیمان (علیہ السلام) کو دے دی،100۔ اور حکمت وعلم تو ہم نے ہر ایک دیا تھا،101۔ اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ تابع کردیا تھا پہاڑوں کو کہ وہ اور پرندے تسبیح کیا کرتے تھے اور (یہ) کرنے والے ہم تھے،102۔
100۔ یہاں یہ ارشاد نہیں کہ صحیح فیصلہ بذریعہ وحی حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر القاء کیا گیا تھا، متبادر یہ ہوتا ہے کہ اصابت رائے وصحت فہم کی قوت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو زائد عطا ہوئی تھی اور اس میں کیا شک کہ سلیمان (علیہ السلام) کی حکمت و دانائی، خوش فہمی اور قوت فیصلہ آج تک یہود ومسیحی اقوام میں بہ طور ضرب المثل کے چلی آتی ہے۔ عارفین نے یہاں سے یہ نکتہ اخذ کیا ہے کہ صحت نظر وجودت قیاس بھی محض فضل ربانی ہے۔ چناچہ اسے اپنی طرف منسوب کرکے فرمایا کہ ہم نے سجادیا، سمجھا دیا۔” صورت مقدمہ کی یہ تھی کہ جس قدر کھیت کا نقصان ہوا تھا اس کی لاگت بکریوں کی قیمت برابر تھی، داؤد (علیہ السلام) نے ضمان میں کھیت والے کو وہ بکریاں دلوادیں اور اصل قانون شرعی کا یہی مقتضا تھا۔ جس میں مدعی یا مدعا علیہ کی رضا بھی شرط نہیں۔ مگر چونکہ اس میں بکری والوں کا بالکل ہی نقصان تھا اس لیے بکریاں تو کھیت والے کو دی جائیں کہ دودھ وغیرہ سے اپنا گزر کرے اور بکری والوں کو وہ کھیت سپرد کیا جائے کہ اس کی خدمت آبپاشی وغیرہ سے کریں۔ جب کھیت پہلی حالت پر آجائے تو کھیت اور بکریاں اپنے اپنے مالکوں کو دے دی جائیں۔ پس اس سے معلوم ہوگیا کہ دونوں فیصلوں میں کوئی تعارض نہیں کہ ایک کی صحت دوسرے کی عدم صحت کو مقتضی ہو۔ اس لیے (آیت) ” کلا اتینا حکما وعلما “۔ بڑھا دیا گیا “۔ (تھانوی (رح ) 101۔ (دونوں میں سے) اس سے ظاہر ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا فیصلہ بھی غلط یا علم و حکمت سے خالی نہ تھا البتہ فیصلہ سلیمانی اس سے بہتر رہا۔ فقہاء نے اس سے متعدد مسائل مستنبط کیے ہیں، مثلا یہ کہ (1) اظہار حق میں شرم وادب نہ چاہئے۔ ورنہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کبھی اپنے والد بزرگوار کے فیصلہ کے خلاف زبان نہ ہلاتے (2) اظہار حق بہ مصلحت شرعی کبھی واجب ہوجاتا ہے اور کبھی مستحب (3) ایک قاضی کا فیصلہ دوسرے قاضی کے فیصلہ کو منسوخ کرسکتا ہے۔ (4) ایک مجتہد کو چاہئے کہ اپنے فیصلہ سے رجوع کرلے جب اسے دوسرا فیصلہ اپنے فیصلہ سے ارجح نظر آئے۔ 102۔ (ان خوارق کے، نہ کہ کوئی اور۔ تو پھر ان کے واقع ہونے میں کوئی تعجب کیوں کرے ! ) (آیت) ” سخرنا “۔ جبال ‘ کے یہ معنی کرنا کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) جب پہاڑوں میں تسبیح میں مشغول ہوتے تھے تو پہاڑ ان کی آواز سے گونجنے لگتے تھے، قرآن کی تفسیر نہیں قرآن کی تحریف ہے۔ اول تو یہ کہیں سے نہیں سے ثابت ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) تسبیح وتہلیل کے وقت اپنے قصر وایوان ومسجد کو چھوڑ کر پہاڑوں کے اوپر یا پہاڑ کی کسی کھوہ میں تشریف لے جاتے تھے، دوسرے پہاڑ پر آواز گونجنے ہی کیوں لگی، اس کے لیے تو لازمی تھا کہ آپ تسبیح بآواز بلند کرتے۔ تیسرے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ قرآن کی کہنے والی ہی کون سی بات خصوصا محل مدح و اظہار نعمت میں۔ بلند آواز کی گونج تو پہاڑوں میں نبی غیر نبی، مومن و کافر ہر انسان بلکہ ہر جانور کی بھی ہوتی ہی رہتی ہے۔ (آیت) ” مع “۔ تسخیر سے مراد محض تبعیت جو اقتداء فی التسبیح ہے نہ یہ کہ ان کے فرمانے سے تسبیح کرتے تھے، گوممکن یہ بھی ہے مگر محتاج دلیل ہے “۔ (تھانوی (رح) توریت کی کتاب زبور میں داؤد (رح) کی زبان سے ہے :۔” پہاڑ اور سارے نیلے میوہ دار درخت اور سارے دیودار، جنگلی جانور اور سارے مواشی اور کیڑے مکوڑے اور پرندے ...... وہ خداوند کے نام کی پرستش کریں، کہ اس کا نام اکیلا عالی شان ہے، اسی کا جلال زمین اور آسمان کے اوپر پھیلا ہے۔ “ (زبور 148: 9۔ 13)
Top