Tafseer-e-Majidi - Ash-Shu'araa : 4
اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَیْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ اٰیَةً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُهُمْ لَهَا خٰضِعِیْنَ
اِنْ نَّشَاْ : اگر ہم چاہیں نُنَزِّلْ : ہم اتار دیں عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنَ السَّمَآءِ : آسمان سے اٰيَةً : کوئی نشانی فَظَلَّتْ : تو ہوجائیں اَعْنَاقُهُمْ : ان کی گردنیں لَهَا : اس کے آگے خٰضِعِيْنَ : پست
ہم اگر چاہیں تو ان پر آسمان سے کوئی (ایسا) نشان اتار دیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے بالکل جھک جائیں،3۔
3) (اور انہیں چار وناچار ایمان لاتے ہی بنے) (آیت) ” ان نشا “۔ یعنی اگر مشیت یہ ہوتی کہ سب کے سب ایمان لے ہی آئیں، تو غیب سے کوئی نہ کوئی ایسا کھلا ہوا نشان دکھا دیا جاتا، جس کے بعد تردود تامل، ردوانکار کی گنجائش ہی باقی نہ رہتی اور سب کے سب ایمان لانے پر مجبور ومضطر ہوجاتے۔ لیکن پھر یہ عالم ابتلاء باقی نہ رہتا یہاں تو مقصود ہی ان کی قوت اختیار کا امتحان ہے۔ اور یہی دیکھنا ہے کہ کون کس حد تک اپنے ارادہ کو صحیح مصرف میں لاتا ہے۔ اور یہی دیکھنا ہے کہ کون کس حد تک اپنے ارادہ کو صحیح مصرف میں لاتا ہے۔ محقق تھانوی (رح) نے یہاں یہ نکتہ خوب بیان کیا ہے کہ تصرف باطنی میں بھی ایک شان جبر و زبردستی کی ہے۔ اس لئے مشائخ محققین سلوک و ارشاد میں اسے پسند نہیں کرتے۔
Top