Tafseer-e-Majidi - Ash-Shu'araa : 3
لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ
لَعَلَّكَ : شاید تم بَاخِعٌ : ہلاک کرلوگے نَّفْسَكَ : اپنے تئیں اَلَّا يَكُوْنُوْا : کہ وہ نہیں مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لاتے
شاید کہ آپ ان کے ایمان نہ لانے پر جان دے دیں گے،2۔
2۔ یعنی آپ کے غم وتاسف سے معلوم کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ ایک نقشہ ہے رسول اللہ ﷺ کی غمخواری اور دلسوزی کا شدید منکروں اور کٹر کافروں تک کے لیے ! قرآن کریم نے آپ کو سمجھایا ہے کہ اس قدر غم وتاسف بےکار ہے۔ ہمارا کام تو اثبات حق کے ساتھ صرف دلائل صحیح وواضح کا نازل کردینا ہے، باقی ایمان لانا نہ لانا یہ خود لوگوں کے اختیار کی چیز ہے صاحب روح المعانی نے آیت سے دو امر اخذ کیے ہیں ایک یہ کہ رسول اللہ ﷺ اپنی امت پر کمال شفقت رکھتے تھے، دوسرے یہ کہ کافر کے ایمان پر حرص حکم ازلی کے منافی نہیں۔ اور عارف تھانوی (رح) نے آیت کے ذیل میں فرمایا ہے کہ (1) شیخ کو شفقت میں اعتدال مناسب ہے، جو ہدایت نہ پائے اس پر حزن نہ کیا جائے۔ (2) کسی کی اصلاح شیخ کے اختیار وقدرت و تصرف میں نہیں۔
Top