Tafseer-e-Majidi - An-Naml : 72
قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ رَدِفَ لَكُمْ بَعْضُ الَّذِیْ تَسْتَعْجِلُوْنَ
قُلْ : فرما دیں عَسٰٓى : شاید اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : ہوگیا ہو رَدِفَ : قریب لَكُمْ : تمہارے لیے بَعْضُ : کچھ الَّذِيْ : وہ جو۔ وہ جس تَسْتَعْجِلُوْنَ : تم جلدی کرتے ہو
آپ کہہ دیجیے کہ جس (عذاب) کی تم جلدی مچا رہے ہو، عجب نہیں کہ اس کا کچھ حصہ تمہارے پاس ہی آلگا ہو،80۔
80۔ چناچہ قحط، قتل، ہزیمت وغیرہ کے تجربے تو اسی دنیا میں ہو کر رہے۔ (آیت) ” ردف لکم “۔ پر نحوی حیثیت سے خاصی بحث ہوئی ہے۔ عام استعمال زبان میں بلاصلہ لام کے ہے۔ ردفہ امرء اردفہ کما یقال تبعہ واتبعہ بعض اہل نحو نے کہا ہے لام اس وقت داخل کیا جاتا ہے جب اضافت کسی فعل کی جانب مقصود ہوتی ہے جیسے تعبرون ویرھبون میں للرء یا تعبرون ولربھم یرھبون (ابن جریر) اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے معنی میں زور پیدا ہوگیا ہے اور معنی ” قریب آلگا “ کے ہوگئے ہیں۔ ادخل اللام فی ذلک المعنی لان معناہ دنالھم “۔ ابن جریر نے یہ سب نقل کرکے ترجیح اسی آخری قول کو دی ہے۔ وھذا القول الثانی ھو اولھما عندی بالصواب (ابن جریر) سب سے بےتکلف اور بےغبار قول زمخشری کا ہے کہ ل یہاں تاکید کے لیے ہے۔ جیسا کہ کہیں کہیں ب بھی تاکید کے لیے آئی ہے۔ زیدت اللام للتاکید کالباء فی ولا تلقوا بایدیکم (کشاف) اللام مزیدۃ للتاکید (بیضاوی)
Top