Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 140
اِنْ یَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ١ؕ وَ تِلْكَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُهَا بَیْنَ النَّاسِ١ۚ وَ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَآءَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَۙ
اِنْ : اگر يَّمْسَسْكُمْ : تمہیں پہنچا قَرْحٌ : زخم فَقَدْ : تو البتہ مَسَّ : پہنچا الْقَوْمَ : قوم قَرْحٌ : زخم مِّثْلُهٗ : اس جیسا وَتِلْكَ : اور یہ الْاَيَّامُ : ایام نُدَاوِلُھَا : ہم باری باری بدلتے ہیں انکو بَيْنَ النَّاسِ : لوگوں کے درمیان وَلِيَعْلَمَ : اور تاکہ معلوم کرلے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَيَتَّخِذَ : اور بنائے مِنْكُمْ : تم سے شُهَدَآءَ : شہید (جمع وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اگر تمہیں کوئی زخم پہنچ جائے تو ان لوگوں کو بھی تو ایسا ہی زخم پہنچ چکا ہے،275 ۔ اور ہم ان ایام کی الٹ پھیر تو لوگوں کے درمیان کرتے ہی رہتے ہیں،276 ۔ تاکہ اللہ ایمان والوں کو جان لے اور تم میں سے کچھ کو شہید بنانا تھا اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا،277 ۔
275 ۔ (تو تمہاری کسی افتاد سے ان مخالفوں کو کیا تسلی ہوسکتی ہے، انہیں تو ایسی ہی افتاد پیش آچکی ہے) (آیت) ” ان یمسسکم قرح “۔ اشارہ ہے ہونے والی جنگ احد کی طرف۔ (آیت) ” مس القوم قرح مثلہ “۔ اشارہ ہے جنگ بدر کی طرف، اس میں قریش کو سخت ہزیمت اٹھانا پڑی تھی۔ 276 ۔ (مصالح تکوینی کے اعتبار سے) سو مجرد فتح وشکست کو حق و باطل کا معیار نہ سمجھا جائے۔ (آیت) ” تلک الایام “۔ یعنی فتح وظفر کا زمانہ۔ والمراد بالایام اوقات الظفر والغلبۃ (کشاف) 277 ۔ (سو ظالموں کے بر سر حق ہونے کا تو گمان بھی نہ کیا جائے، خواہ تکوینی مصلحتوں کی بنا پر انہیں عارضی اور ہنگامی کامیابیاں کیسی ہی حاصل ہوجائیں) (آیت) ” لیعلم اللہ الذین امنوا “۔ یعنی مومنین کا ایمان عالم آشکارہوجائے، ان کے اعمال ایثار اور جانبازی کی بنا پر۔ (آیت) ” ویتخذ منکم شھدآء “ شہادت راہ حق، معلوم ہے کہ شریعت اسلامی میں روحانی ترقی کی معراج اور قرب الہی کا اعلی مرتبہ ہے۔
Top