Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 140
اِنْ یَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ١ؕ وَ تِلْكَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُهَا بَیْنَ النَّاسِ١ۚ وَ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَآءَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَۙ
اِنْ : اگر يَّمْسَسْكُمْ : تمہیں پہنچا قَرْحٌ : زخم فَقَدْ : تو البتہ مَسَّ : پہنچا الْقَوْمَ : قوم قَرْحٌ : زخم مِّثْلُهٗ : اس جیسا وَتِلْكَ : اور یہ الْاَيَّامُ : ایام نُدَاوِلُھَا : ہم باری باری بدلتے ہیں انکو بَيْنَ النَّاسِ : لوگوں کے درمیان وَلِيَعْلَمَ : اور تاکہ معلوم کرلے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَيَتَّخِذَ : اور بنائے مِنْكُمْ : تم سے شُهَدَآءَ : شہید (جمع وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اگر تمہیں زخم (شکست) لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی ایسا زخم لگ چکا ہے اور یہ دن ہیں کہ ہم ان کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں اور اس سے یہ بھی مقصود تھا کہ خدا ایمان والوں کو متمیز کر دے اور تم میں سے گواہ بنائے اور خدا بےانصافوں کو پسند نہیں کرتا
آیت نمبر : 140۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ان یمسسکم قرح “۔ قرح کا معنی زخم، چوٹ ہے اس میں کسائی اور اخفش سے ضمہ اور فتحہ کے ساتھ دونوں لغتیں منقول ہیں (یعنی قرح اور قرح) مثلا عقر اور عقر۔ اور فراء نے کہا ہے : فتحہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی زخم ہے اور ضمہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی زخم کا درد ہے، اور معنی یہ ہے کہ اگر احد کے دن تمہیں زخم لگا ہے تو بدر کے دن (تمہاری دشمن) قوم کو بھی اسی کی مثل زخم لگا ہے، اور محمد بن سمیقع نے مصدر کی بنا پر فا اور را کے فتحہ کے ساتھ قرح پڑھا ہے۔ (آیت) ” وتلک الایام نداولھا بین الناس “۔ کہا گیا ہے : یہ جنگ میں ہوتا ہے، ایک بار مومنین کے لئے ہوتی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی مدد فرمائے، اور ایک بار کافروں کے لئے ہوتی ہے جب مومنین نافرمانیاں کرنے لگیں تاکہ وہ انہیں آزمائش میں ڈالے اور ان کے گناہوں کو کم کرے اور رہی یہ صورت کہ جب وہ نافرمانیاں نہ کریں تو پھر یقینا اللہ تعالیٰ کا گروہ ہی غالب آتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : (آیت) ” نداولھا بین الناس “۔ ہم پھراتے رہتے ہی لوگوں کے درمیان خوش اور غم، صحت اور بیماری، اور خوشحالی اور تنگدستی کو اور الدولۃ کا معنی ہے ایک بار۔ شاعر نے کہا ہے : قیوم لناویوم علینا ویوم نساء ویوم نسر “ پس ایک دن ہمارے حق میں ہوتا ہے اور ایک دن ہمارے خلاف اور کبھی ہمیں اذیت دی جاتی ہے اور کبھی ہمیں خوش کیا جاتا ہے۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” ولیعلم اللہ الذین امنوا “ اس کا معنی ہے : بلاشبہ یہ پھرنا اس لئے ہے تاکہ مومن کو منافق سے (جدا) دکھایا جائے اور ان میں سے بعض کو بعض سے ممتاز کیا جاسکے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وما اصابکم یوم التقی الجمعن فباذن اللہ ولیعلم المؤمنین، ولیعلم الذین نافقوا “۔ (آل عمران) اور یہ بھی کہا گیا ہے تاکہ وہ مومنین کے صبر کو جان لے، (یعنی) ایسا علم جس پر جزا واقع ہوگی، جیسا کہ انہیں مکلف بنانے سے پہلے اس کا غیبی علم ہے، یہ معنی سورة البقرہ میں گزر چکا ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ویتخذ منکم شھدآء “۔ اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ویتخذ منکم شھدآء “۔ یعنی وہ تمہیں شہادت کے ساتھ تکریم اور اعزاز عطا فرمائے، یعنی تاکہ ایک قوم (جماعت) قتل کی جائے اور وہ لوگوں پر اپنے اعمال کے سبب گواہ ہوجائیں، اور کہا گیا ہے کہ اسی وجہ سے اسے شہید کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے : اسے شہید اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ جنت اس کے لئے حاضر کردی جاتی ہے، اور یہ قول بھی کہ اس کا نام شہید اس لئے ہے کیونکہ ان کی ارواح دارالسلام میں حاضر ہیں، کیونکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں۔ اور انکے سوا دوسروں کی ارواح جنت تک نہیں پہنچتی ہیں، پس شہید بمعنی شاہد ہے یعنی جنت کے لئے حاضر ہونے والا، آنے والے بیان کے مطابق یہی صحیح معنی ہے، اور شہادت کی فضیلت بہت عظیم ہے، اور تیرے لئے اس کی فضیلت میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کافی ہے : (آیت) ” ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسھم “۔ الآیہ (التوبہ : 111) ترجمہ : یقینا اللہ نے خرید لی ہیں ایمانداروں سے ان کی جانیں اور انکے مال اس عوض میں کہ ان کے لئے جنت ہے) اور اللہ تعالیٰ کا یہ اور ارشاد : (آیت) ” یایھا الذین امنوا ھل ادلکم علی تجارۃ تنجیکم من عذاب الیم، تؤمنون باللہ ورسولہ وتجاھدون فی سبیل اللہ باموالکم وانفسکم ذلکم خیرلکم ان کنتم تعلمون، یغفرلکم ذنوبکم ویدخلکم جنت تجری من تحتھا الانھر ومسکن طیبۃ فی جنت عدن، ذلک الفوز العظیم “۔ (الصف) ترجمہ : اے ایمان والو ! کیا میں آگاہ کروں تمہیں ایسی تجارت پر جو بچا لے تمہیں درد ناک عذاب سے (وہ تجارت یہ ہے) تم ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے۔۔۔ یہی بڑی کامیابی ہے) اور صحیح البستی میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” شہید قتل سے اتنی ہی تکلیف پاتا ہے جتنی تم میں سے کوئی پھوڑے سے پاتا ہے۔ (1) (سنن ابن ماجہ، کتاب الجہاد، صفحہ 206، اسلام آباد) اور نسائی نے بیان کیا ہے کہ راشد بن سعد ؓ سے حضور نبی مکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک آدمی سے روایت کیا ہے کہ کسی آدمی نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ مومنین کو کیا ہوا ہے کہ سوائے شہید کے انہیں اپنی قبروں میں آزمائش اور فتنہ میں ڈالا جائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اس کے سر پر تلواروں کی چمک فتنہ اور آزمائش کے لئے کافی ہے (2) ’(سنن نسائی، کتاب الجنائز، جلد 1 صفحہ 289، اسلام آباد) اور بخاری میں ہے : مسلمانوں میں سے احد کے دن جو شہید کئے گئے ، “ ان میں سے حضرت حمزہ، ؓ یمان، ؓ نضر بن انس ؓ ، مصعب بن عمیر ؓ ، ہیں، عمرو بن علی نے مجھے بیان کیا ہے کہ معاذ بن ہشام نے کہا : میرے باپ نے حضرت قتادہ ؓ سے مجھے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : ہم قبائل عرب میں سے کوئی ایسا قبیلہ نہیں جانتے جس میں انصار سے بڑھ کر شہید ہوں اور قیامت کے دن وہ ان سے زیادہ عزت والا ہو۔ حضرت قتادہ ؓ نے بیان کیا ہے : اور ہمیں حضرت انس بن مالک ؓ نے بتایا ہے کہ ان میں سے احد کے دن ستر آدمی شہید کے گئے اور بئر معونہ کے دن ستر اور یمامہ کے دن بھی ستر (آدمی شہید کئے گئے) فرمایا : بئرمعونہ کا واقعہ حضور نبی مکرم ﷺ کے عہد میں ہوا، اور جنگ یمامہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے عہد میں مسیلمہ کذاب سے لڑی گئی، (3) (صحیح بخاری، کتاب المغازی، جلد 2، صفحہ 584، آرام باغ کراچی) اور حضرت انس ؓ نے بیان فرمایا : حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو لایا گیا اور آپ کے جسم پر نیزے تلوار اور تیر کے ساٹھ کے قریب زخم تھے تو حضور نبی مکرم ﷺ ان پر دست مبارک پھیرنے لگے اور وہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے اس طرح جڑنے اور مندمل ہونے لگے گویا وہ تھے ہی نہیں۔ مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ (آیت) ” ویتخذ منکم شھدآء “ اس میں اس پر دلیل موجود ہے کہ ارادہ امر کا غیر ہے۔ (یعنی دونوں علیحدہ علیحدہ ہیں) جیسا کہ اہل السنۃ یہی کہتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کفار کو مومنین کے قتل سے منع کیا ہے، یعنی حضرت حمزہ اور آپ کے ساتھیوں کو رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور انکے قتل کا ارادہ فرمایا ہے اور حضرت آدم (علیہ السلام) کو درخت کھانے سے منع فرمایا اور کھانے کا ارادہ فرمایا پس آدم (علیہ السلام) اس میں واقع ہوئے۔ اور اس کے برعکس یہ ہے کہ ابلیس کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور اس کا ارادہ نہیں کیا پس وہ س سے رک گیا، اور اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے قول حق کے ساتھ اشارہ بھی واقع ہے :۔ (آیت) ” ولکن کرہ اللہ اتبعاثھم فثبطھم ‘۔ (التوبۃ : 46) ترجمہ ؛ لیکن ناپسند کیا اللہ تعالیٰ نے ان کے کھڑا ہونے کو اس لئے پست ہمت کردیا انہیں۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے تمام کو جہاد کا حکم دیا ہے لیکن سستی، کاہلی اور سفر سے رہ جانے والے اسباب بھی پیدا فرما دیئے پس وہ پیچھے بیٹھ رہتے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (3) حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : بدر کے دن حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور آپ کو عرض کی : ” آپ قیدیوں کے بارے میں اپنے اصحاب کو اختیار دے دیجئے اگر وہ چاہیں تو قتل کردیں اور اگر چاہیں تو اس شرط پر فدیہ لے لیں، کہ آئندہ سال انکے برابر ان میں سے قتل کئے جائیں گے تو انہیں کہا : ہم فدیہ لیں گے اور ہم میں سے قتل کئے جائیں گے۔ “ اسے ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے : یہ حدیث حسن ہے (1) (جامع ترمذی کتاب السیر جلد 1، صفحہ 190، اسلام آباد) پس اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ اپنے اولیاء کی شہادت کے ساتھ پورا کردیا اس کے بعد کہ انہیں اختیار دیا تو انہوں نے قتل کو اختیار کیا۔ (آیت) ” واللہ لا یحب الظلمین “۔ یعنی اللہ تعالیٰ مشرکین کو دوست نہیں رکھتا یعنی اگر وہ مومنین کی جانب سے کفار کو کچھ دے تو وہ انہیں پسند نہیں کرتا ہے اور اگر وہ مومنین کے سبب کچھ تکلیف پہنچائے تو بلاشبہ وہ مومنین کو دوست رکھتا ہے۔
Top