Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 61
فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ١۫ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ
فَمَنْ : سو جو حَآجَّكَ : آپ سے جھگڑے فِيْهِ : اس میں مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جب جَآءَكَ : آگیا مِنَ : سے الْعِلْمِ : علم فَقُلْ : تو کہ دیں تَعَالَوْا : تم آؤ نَدْعُ : ہم بلائیں اَبْنَآءَنَا : اپنے بیٹے وَاَبْنَآءَكُمْ : اور تمہارے بیٹے وَنِسَآءَنَا : اور اپنی عورتیں وَنِسَآءَكُمْ : اور تمہاری عورتیں وَاَنْفُسَنَا : اور ہم خود وَاَنْفُسَكُمْ : اور تم خود ثُمَّ : پھر نَبْتَهِلْ : ہم التجا کریں فَنَجْعَلْ : پھر کریں (ڈالیں) لَّعْنَتَ : لعنت اللّٰهِ : اللہ عَلَي : پر الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
پھر جو کوئی آپ سے اس باب میں حجت کرے بعد اس کے کہ آپ کے پاس علم (صحیح) پہنچ چکا ہے،146 ۔ تو آپ کہہ دیجئے،147 ۔ کہ اچھا آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بھی بلائیں اور تمہارے بیٹوں کو بھی اور اپنی عورتوں کو بھی اور تمہاری عورتوں کو بھی اور اپنے آپ کو بھی اور تمہارے تئیں بھی، پھر ہم خشوع سے دعا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں،148 ۔
146 ۔ (اے پیغمبر ! ) (آیت) ” فیہ “۔ فیہ یعنی ربوبیت والوہیت مسیح (علیہ السلام) کے باب میں۔ سورة کے شروع میں جو حاشیہ ہیں انہیں ایک بار پھر نظر میں لے آیا جائے۔ سورة کا اصلی موضوع مسیحیت اور عقیدہ الوہیت مسیح (علیہ السلام) کا رد ہے۔ گفتگو نجران کے مسیحی وفد سے چل رہی ہے۔ (آیت) ” فمن حآجک “ یعنی ان مسیحیوں میں سے اب بھی کوئی آپ ﷺ سے اپنی سخن پروری جاری رکھے۔ (آیت) ” العلم “۔ اور علم بھی کیسا ؟ ظنی وتخمینی نہیں۔ حتمی۔ یقینی۔ 147 ۔ بہ طور اتمام حجت کے۔ اب جبکہ زبانی افہام و تفہیم اور دلائل کے سارے مرتبے طے ہوچکے اور مسیحی اپنی بات کی پچ پر اڑے ہوئے ہیں) 148 ۔ اسی کا نام شریعت کی اصطلاح میں مباہلہ ہے۔ مباہلہ میں ہر فریق اپنے کو اللہ کے سپرد کردیتا ہے اور تضرع والحاح کے بعد اسی کے فیصلہ کا منتظر رہتا ہے۔ (آیت) ” ندع “۔ ضمیر متکلم سے مراد ہر دو فریق اور ان کے افراد ہیں۔ (آیت) ” ابنآء “۔ محض صلبی بیٹے مراد نہیں نواسہ، داماد وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔ (آیت) ” نسآء “۔ بیویاں اور بیٹیاں دونوں اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ صفحہ 12 1 ۔ حاشیہ 1 میں بیان ہوچکا ہے کہ 9 ہجری میں مسیحیاں نجران کے 14 اکابر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے گفتگو الوہیت مسیح (علیہ السلام) کے مسئلہ پر رہی۔ اسلامی عقیدہ بالکل صاف اور واضح تھا۔ مسیحی اپنی بات پر اڑے رہے۔ آخر کار آپ ﷺ نے وہی کیا جو ایک سچا اور مخلص دیندار ایسے موقع پر کرتا۔ آپ ﷺ نے فرمان خداوندی کے ماتحت مسیحیوں کو مباہلہ کی دعوت دے دی کہ زبانی گفتگو تو بہت ہوچکی اب آؤ ہم تم اپنے خاص اقربا کو لے کر اپنے پروردگار ہی سے یہ تضرع والحاح عرض کریں کہ جو فریق ناحق پر ہوا اس پر اللہ کی لعنت نازل ہو۔ آپ ﷺ نے یہ فرمایا اور اپنی اولاد یعنی سیدہ فاطمہ ؓ ، سیدنا علی ؓ ، سیدنا حضرت حسن ؓ ، اور سیدنا حضرت حسین ؓ کو ہمراہ لے کر آپ ﷺ تشریف لے آئے لیکن تاریخ کے راوی کا بیان ہے کہ مسیحیوں کی ہمت عین وقت پر جواب دے گئی اور عافیت اسی میں نظر آئی کہ جزیہ دے کر اور ذمی رعایا بن کر اسلام کی حکومت میں رہنا گوارا کرلیا جائے سرولیم میور مسلمان نہیں انیسویں صدی کے مسیحی تھے اور محض مسیحی ہی نہیں مشنری بھی۔ ان کے قلم سے ملاحظہ ہو :۔ ” سارے واقعہ میں محمد ﷺ کے ایمان کی پختگی بالکل نمایاں ہے نیز ان کے اس عقیدہ کی شہادت کہ ان کا تعلق عالم غیب سے جڑا ہوا ہے اور اس لیے تمامتر انہیں کے ساتھ ہے۔ درآنحالیکہ ان کے خیال میں مسیحیوں کے پاس بجز ظن وتخمین کے اور کچھ نہ تھا “ (میور کی لائف آف محمد ﷺ صفحہ 260)
Top