Tafseer-e-Majidi - Faatir : 45
وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰى ظَهْرِهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِیْرًا۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر يُؤَاخِذُ اللّٰهُ : اللہ پکڑ کرے النَّاسَ : لوگ بِمَا كَسَبُوْا : ان کے اعمال کے سبب مَا تَرَكَ : وہ نہ چھوڑے عَلٰي : پر ظَهْرِهَا : اس کی پشت مِنْ دَآبَّةٍ : کوئی چلنے پھرنے والا وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَخِّرُهُمْ : وہ انہیں ڈھیل دیتا ہے اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ : ایک مدت معین فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آجائے گی اَجَلُهُمْ : ان کی اجل فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِعِبَادِهٖ : اپنے بندوں کو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
بڑا قدرت والا ہے اور اگر اللہ ان لوگوں پر داروگیر کرنے لگتا، ان کے اعمال کے سبب، تو پشت زمین پر ایک بھی چلنے پھرنے والے کو بھی نہ چھوڑتا اللہ تو انہیں مہلت دے رہا ہے ایک میعاد متعین تک، سو جب ان کی وہ میعاد آپہنچے گی اللہ اپنے بندوں کو آپ ہی خوب دیکھ لے گا،61۔
61۔ (اور ہر ایک سے اس کے مناسب حال برتاؤ کرے گا) (آیت) ’ ولو ...... دآبۃ “۔ یعنی یہ تو مشیت تکوینی سرے سے ہے ہی نہیں کہ معاصی وذنوب پر گرفت فی الفور اور اسی دنیا میں ہوجایا کرے، یہ اگر ہوتا تو کوئی کافر زندہ ہی نہ رہنے پاتا، اور اہل ایمان اس لیے اٹھا لیے جاتے کہ نظام عالم مجموعہ کے ساتھ ہی وابستہ ہے اور جب انسان نہ رہتے تو کوئی حیوان بھی نہ باقی رہنے دیا جاتا۔ کہ حیوانات کی حیثیت تو محض انسانوں کے خادم کی ہے۔ (آیت) ” من دآبۃ “۔ اس سیاق میں (آیت) ” دآبۃ “۔ سے کیا مراد ہے، اس پر اچھی خاصی بحث ہوئی ہے۔ ہر متحرک جانور، جن وانس، اور نوع انسانی یہ سب مراد لیے گئے ہیں۔ اور مآل ہر تفسیر کا ایک ہی ہے۔ قال ابن مسعود یرید جمیع الحیوان مما دب ودرج وقال الکلبی یرید الجن والانس دون غیرھما لانھما مکلفان بالعقل وقال ابن جریر والاخفش والحسن، بالفضل اے وبالدآبۃ ھنا الناس وحدھم دون غیرھم (قرطبی) اے لاھلک جمیع اھل السموت والارض وما یملکونہ من دوآب وارزاق (ابن کثیر) ۔
Top