Tafseer-e-Majidi - Az-Zumar : 35
لِیُكَفِّرَ اللّٰهُ عَنْهُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا وَ یَجْزِیَهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
لِيُكَفِّرَ : تاکہ دور کردے اللّٰهُ : اللہ عَنْهُمْ : ان سے اَسْوَاَ : برائی الَّذِيْ : وہ جو عَمِلُوْا : انہوں نے کیے (اعمال) وَيَجْزِيَهُمْ : اور انہیں جزا دے اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِاَحْسَنِ : بہترین (اعمال) الَّذِيْ : وہ جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
تاکہ اللہ ان سے انکے عمل کی برائیوں کو دور کردے اور ان کے عمل کی نیکیوں کا انہیں (پورا) اجر دے،46۔
46۔ (آیت) ” اسوا الذی عملوا “۔ اہل اخلاص کو اجر کا پورا پورا ملنا تو ظاہر ہی ہے۔ لیکن یہاں تصریح ایک دوسری چیز کی بھی ہے۔ (یعنی ان کی تکفیر ذنوب کی ..... گویا اہل اخلاص (محسنین) بھی ذنوب ومعاصی سے خالی نہ ہوں گے۔ اس میں رد نکل آیا ایک طرف تو ان غالی صوفیہ ومشائخ کا جو اولیاء وصالحین کو ذنوب ومعاصی سے ماوراء ومنزہ، سمجھنے لگتے ہیں اور دوسری طرف ان خارجی اور نیم خارجی فرقوں کا جو زلات ومعاصی کی بناء پر مومنین کو دائرہ ایمان سے خارج کردیا کرتے ہیں۔ (آیت) ” ویجزیھم ....... یعملوں “۔ مقاتل بن سلیمان نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ انہیں محاسن کا معاوضہ ملے گا، سیئات کی سزا نہ ملے گی، قال مقاتل لیجزیھم بالمحاسن اعمالھم ولا یجزیھم بالمساوی (کبیر۔ معالم) لیکن امام رازی (رح) نے اس قول کو یہ کہہ کر رد کردیا ہے کہ مقاتل تو فرقہ مرجۂ کا سردار تھا، جن کے نزدیک جس طرح کافر کو کوئی طاعت نفع نہ پہنچائے گی، مومن کو بھی کوئی معصیت مضر نہ ہوگی، واعلم ان مقاتلا کان شیخ المرجءۃ وھم الذین یقولون لایضرشیء من المعاصی مع الایمان کما لاینفع من الطاعات مع الکفر (کبیر)
Top