Tafseer-e-Majidi - Az-Zumar : 36
اَلَیْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ١ؕ وَ یُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍۚ
اَلَيْسَ : کیا نہیں اللّٰهُ : اللہ بِكَافٍ : کافی عَبْدَهٗ ۭ : اپنے بندے کو وَيُخَوِّفُوْنَكَ : اور وہ خوف دلاتے ہیں آپ کو بِالَّذِيْنَ : ان سے جو مِنْ دُوْنِهٖ ۭ : اس کے سوا وَمَنْ : اور جس يُّضْلِلِ : گمراہ کردے اللّٰهُ : اللہ فَمَا لَهٗ : تو نہیں اس کے لیے مِنْ : کوئی هَادٍ : ہدایت دینے والا
کیا اللہ اپنے بندۂ (خاص) کے لیے کافی نہیں ؟ اور یہ لوگ آپ کو ان سے ڈراتے ہیں جو اللہ کے علاوہ ہیں،47۔ اور جسے اللہ گمراہ کردئے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں
47۔ مشرکین عرب کے کمال حمق کا بیان ہے۔ اللہ کے نام سے ایک معبود اعظم کے وہ بھی قائل تھے۔ باوجود اس کے رسول اللہ ﷺ کو اپنے گڑھے ہوئے دیوی دیوتاؤں کے قہر وغضب وانتقام سے ڈراتے تھے۔ ان دیوتاؤں کا اولا تو وجود ہی فرضی ووہمی اور پھر اگر حقیقی بھی ہو تو خود انہیں لوگوں کے مسلمات کے لحاظ سے یہ خدائے اعظم کے مقابلہ میں تو پست اور ہیچ ہی تھے۔ آیت کا مفہوم وسیع تر بھی ہے۔ اہل حق کو اہل باطل طرح طرح پر دھمکیاں دیتے آئے اور ڈراتے آئے ہیں، کبھی اپنے دیوی دیوتاؤں سے ڈراتے ہیں اور کہیں دنیوی حکومت وقوت سے۔ قرآن مجید جواب دیتا ہے کہ کائنات کی ہر ممکن مخالفانہ قوت سے دفاع کے لئے حق تعالیٰ خود بالکل کافی ہے۔ (آیت) ” عبدہ “۔ عبد سے مراد جیسا کہ سیاق کلام سے بالکل ظاہر ہے۔ رسول اللہ ﷺ ہیں۔ جو خدائے قادر و توانا اپنے پر بندہ کی حفاظت کے لئے کافی ہے کیا اس بندۂ خاص کی حفاظت کے لئے کافی نہ ہوتا ؟
Top