Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 128
وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًا١ؕ وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ١ؕ وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ١ؕ وَ اِنْ تُحْسِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا
وَاِنِ : اور اگر امْرَاَةٌ : کوئی عورت خَافَتْ : ڈرے مِنْۢ بَعْلِھَا : اپنے خاوند سے نُشُوْزًا : زیادتی اَوْ : یا اِعْرَاضًا : بےرغبتی فَلَا جُنَاحَ : تو نہیں گناہ عَلَيْهِمَآ : ان دونوں پر اَنْ يُّصْلِحَا : کہ وہ صلح کرلیں بَيْنَهُمَا : آپس میں صُلْحًا : صلح وَالصُّلْحُ : اور صلح خَيْرٌ : بہتر وَاُحْضِرَتِ : اور حاضر کیا گیا (موجود ہے) الْاَنْفُسُ : طبیعتیں الشُّحَّ : بخل وَاِنْ : اور اگر تُحْسِنُوْا : تم نیکی کرو وَتَتَّقُوْا : اور پرہیزگاری کرو فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو تم کرتے ہو خَبِيْرًا : باخبر
اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی یا بےالتفاتی کا اندیشہ ہو تو اس میں ان کیلئے کوئی مضائقہ نہیں کہ دونوں آپس میں ایک خاص طریق پر صلح کرلیں،336 ۔ اور صلح (بہرحال) بہتر ہے،337 ۔ اور طبیعتوں میں تو بخل ہوتا ہی ہے،338 ۔ اور اگر تم حسن سلوک رکھو اور تقوی اختیار کئے رہو تو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ بیشک اس کی پوری خبر رکھتا ہے،339 ۔
336 ۔ (بہ شرطی کہ شرائط صلح اصلاجائز ہوں، حرام وممنوع نہ ہوں) فقہاء نے تصریح کردی ہے کہ صلح اگر کسی حرام شرط کے ساتھ مشروط ہوگی تو باطل ہوگی، مثلا شوہر نے صلح کی یہ شرط لگا دی کہ وہ بیوی کے ساتھ اس کی بہن کو بھی زوجیت میں رکھے گا اور بیوی نے اسے منظور کرلیا، جب بھی چونکہ یہ ایک امر حرام ہے۔ ، اس لئے یہ مصالحت باطل رہے گی، (آیت) ” صلحا “۔ کی تنوین تنویع کے لئے ہے۔ یعنی ایک خاص قسم کی صلح، پوری صلح اگر طیب خاطر کے ساتھ ہوجائے تو پھر تو کسی شرط وغیرہ کا سوال ہی نہیں رہ جاتا۔ (آیت) ” ان یصلحا بینھما صلحا “ مثلا اس طور پر کہ بیوی اپنے شوہر کو رضا مند رکھنے کے لئے اپنے حقوق میں سے کچھ چھوڑ دے۔ اپنا مہر معاف کردے، یا اس میں کمی کردے، اپنی باری کا دن دوسری بیوی کو دے دے، اپنے مصارف کا بار ہلکا کردے وقس علی ہذا۔ فقہا نے لکھا ہے کہ بیوی کے حق شوہر پر دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک ثابت ومستقل مثلا رقم مہر، دوسرے وہ جو وقتا فوقتا پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ مثلا نفقہ یا ہم بستری، صلح کے لئے عورت دستبرداری دونوں قسم کے حقوق سے کرسکتی ہے۔ البتہ یہ فرق ہے کہ قسم اول کے حقوق میں نقض صلح کا اختیار نہ رہے گا۔ یعنی جو چھوڑا، بس وہ ساقط ہوگیا اور الساقط لایعود۔ لیکن دوسرے قسم کے حقوق میں بیوی کو یہ اختیار باقی رہے گا کہ وہ جب چاہے، کسی چھوڑے ہوئے حق کا مطالبہ از سر نو کردے۔ (آیت) ” فلاجناح علیھما “۔ بیوی کی طرف سے یہ دستبرداری بظاہر ایک صورت رشوت کی معلوم ہوتی ہے۔ یہاں اس وہم کو دفع فرمایا ہے اور بتادیا ہے کہ نہیں اس میں کچھ مضائقہ نہیں، بالکل جائز و درست ہے۔ (آیت) ’ نشوزا “۔ نشوز کے معنی پر حاشیہ اوپر گزر چکا ہے۔ (آیت) ” ان امراۃ خافت “ َ بیوی کی طرف سے جو نشوز ہو اس کا علاج اوپر بتایا جا چکا ہے۔ اب یہاں یہ بتلایا جارہا ہے کہ نشوز اگر شوہر کی طرف سے ہو تو وہ بھی لاعلاج نہیں۔ اس کی بھی تدبیریں ہیں (آیت) ” خافت “۔ خوف یہاں توقع کے معنی میں ہے خافت یعنی تو قعت (قرطبی) 337 ۔ (ہر نزاع وافتراق سے، ہر فساد وعناد سے) من الفرقۃ اوسوء العشرۃ اومن الخصومۃ (بیضاوی) نزاع وافتراق یوں بھی عقل و شریعت کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔ چہ جائیکہ خانگی زندگی میں اور میاں بیوی جیسے قریب ترین رشتوں کے درمیان۔ 338 ۔ بیوی کے لیے ان الفاظ میں صاف ترغیب ہے کہ وہ اپنے کچھ حقوق چھوڑ ہی دے بلا سے۔ تعلق زوجیت تو قائم رہے۔ تو شوہر جب دیکھے گا کہ اس کے اپنے حقوق وحظوظ میں کچھ فرق نہیں آتا اور بیوی ہی اپنے بعض حقوق کا مطالبہ چھوڑے دے رہی ہے تو عجب نہیں کہ مصالحت پر جلد آمادہ ہوجائے (آیت) ” الشح “۔ شح ایسے بخل کو کہتے ہیں جس کے ساتھ حرص ملی ہو۔ الشح بخل مع حرص (راغب) مراد یہ ہے کہ خود غرضی اور نفس کی آرام طلبی سے کوئی بھی فریق خالی نہیں۔ یہ اپنی راحت ڈھونڈتا ہے وہ اپنی۔ ای کل واحد منھما یطلب مافیہ راحتہ (مدارک) 339 ۔ (اور اس کی طرف سے وعدہ ہر تقوی اور حسن سلوک پر اجر کا ہے) اس میں درپردہ شوہروں کو نصیحت ہے کہ نفاق وافتراق تو خیر بہت دور کی چیز ہے انہیں تو تقوی اور حسن سلوک کی روش پر قائم رہ کر بیویوں سے کسی حق کی دستبرداری کی بھی توقع نہ رکھنی چاہیے۔ (آیت) ” وان تحسنوا وتتقوا “۔ ذکر یہاں شوہروں کے نشوز واعراض کا چل رہا ہے اس لئے یہ خطاب بھی شوہروں سے ہے (آیت) ” تحسنوا “۔ تو شوہر جب بیوی سے حسن سلوک کا خوگر ہوجائے گا تو اس سے اس کی بھی توقع نہیں رکھے گا۔ کہ وہ اپنے کسی حق سے دستبردار ہوجائے (آیت) ” وتتقوا “۔ اور جب تقوی اختیار کرے گا تو نشوز واعراض خود ہی کافور ہوجائیں گے۔ خوب خیال کرکے دیکھ لیاجائے کہ قرآن مجید میں جہاں جہاں حسن معاشرت زوجین کا ذکر آیا ہے میاں بیوی میں سے کسی کو ادائے حقوق پر توجہ دلائی ہے۔ ایک جامع لفظ تقوی کا لایا گیا ہے اور اس خانگی حسن معاشرت کو تقوی ہی کی ایک اہم فردوقرار دیا گیا ہے اور حق یہ ہے کہ اس سے بہتر اور مؤثر تر تدبیر کوئی اور ہے ہی نہیں۔
Top