Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 33
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُعَذِّبَهُمْ : کہ انہیں عذاب دے وَاَنْتَ : جبکہ آپ فِيْهِمْ : ان میں وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے اللّٰهُ : اللہ مُعَذِّبَهُمْ : انہیں عذاب دینے والا وَهُمْ : جبکہ وہ يَسْتَغْفِرُوْنَ : بخشش مانگتے ہوں
اور خدا ایسا نہ تھا کہ جن تک تم ان میں تھے انہیں عذاب دیتا۔ اور نہ ایسا تھا کہ وہ بخش مانگیں اور انہیں عذاب دے۔
(8:33) وما کان اللہ لیعذبھم وانت فیہم۔ وما کان اللہ لیعدذبھم وھم یستغفرون۔ اور جب تک تو (اے محمد ﷺ ) ان (مشرکین مکہ) میں موجود تھا۔ تو یہ اللہ ان کو عذاب دینے کا نہ ہوا۔ اور نہ ہی وہ ان کو عذاب دینے والا ہوا جب تک وہ استغفار کرسکتے تھے یعنی ان میں یہ صلاحیت موجود تھی۔ وھم یستغفرون کے متعلق مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ کہ جب مشرکین بیت اللہ کا طواف کرتے تو یہ پڑھتے تھے۔ لبیک اللہم لبیک لا شریک لک لبیک الاشریکا ھو لک تملکہ وما ملک غفرانک۔ اسی طلب غفران کی وجہ سے وہ عذاب سے مامون رہے ۔ لیکن یہ صورت حال تو فتح مکہ تک بدستور رہی اور اس کی موجودگی میں ہی فتح مکہ کی صورت میں وہ معتوب ہوگئے۔ بعض نے کہا ہے کہ دن کو وہ یہ کہتے ان کان ھذا ھو الحق من عنداک فامطر علینا حجارۃ من السمائ۔ لیکن رات کو اپنی ندامت کا اظہار کرتے اور دعا کرتے غفرانک اللہم لہٰذا ان پر عذاب نہ آیا۔ لیکن اس میں بھی وہی مذکور و بالا اعتراض ہوسکتا ہے اس کے علاوہ دیگر اقوال بھی ہیں۔ سب سے زیادہ قابل فہم وہی ترجمہ ہے جو اوپر کیا گیا ہے یہ ترجمہ عبد اللہ یوسف علی نے کیا ہے اور تفہیم القرآن میں بھی اس مفہوم کو اختیار کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے :۔ وفیہم من سبق لہ من العنایۃ انہ یؤمن ویستغفر ۔ مثل ابی سفیان بن حرب۔ صفوان بن امیۃ۔ عکرمۃ بن ابی جھل وسہیل بن عمرو۔ (اور مشرکین میں بعض ایسے تھے کہ جن پر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی عنایت کر رکھی تھی کہ وہ ایمان لے آئیں گے اور اپنی سابقہ غلط روی کی معافی مانگ لیں گے) ۔
Top