Tafseer-e-Majidi - Az-Zukhruf : 38
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَنَا قَالَ یٰلَیْتَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِیْنُ
حَتّىٰٓ : یہاں تک کہ اِذَا جَآءَنَا : جب وہ آئے گا ہمارے پاس قَالَ : کہے گا يٰلَيْتَ : اے کاش بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنَكَ : اور تمہارے درمیان بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ : دوری ہوتی دو مشرقوں کی فَبِئْسَ الْقَرِيْنُ : تو بہت برا ساتھی (نکلا)
(یہ تغافل قائم رہتا ہے) یہاں تک کہ جب وہ شخص ہمارے پاس آجاتا ہے تو (شیطان اس سے) کہتا ہے کہ کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق ومغرب کا فاصلہ ہوتا تو وہ (شیطان) کیسا برا ساتھی ہے،29۔
29۔ انکشاف حقیقت کے وقت انسان حسرت وندامت میں سب کچھ کرے گا کہ کیوں شیطان کا ساتھ ہوا۔ لیکن اس وقت سب بیکار ہوگا۔ ایک حدیث میں یہ مضمون آیا ہے کہ کافر کا شیطان خواب وخور میں اس کا شریک رہتا ہے۔ اور مومن کا شیطان منتظر رہتا ہے کہ کب اسے غفلت ہو اور پہنچے اور اسے دبائے۔ (آیت) ” حتی اذا جآء نا “۔ یعنی یہ تغافل اور یہ مغالطہ بس وہی دنیوی زندگی تک رہتا ہے، اس کے ختم ہوتے ہی کشف حقائق ہونے لگتا ہے۔ (آیت) ” بعد المشرقین “۔ سے محاورہ میں مراد دو مشرقوں سے نہیں بلکہ مشرق ومغرب سے ہوتی ہے۔ یرید المشرق والمغرب والاصل بعد المشرق من المغرب والمغرب من المشرق (کشاف) ومن عادۃ العرب تسمیۃ الشیئین المتقابلین باسم احدھما (کبیر)
Top