Al-Quran-al-Kareem - Adh-Dhaariyat : 7
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَنَا قَالَ یٰلَیْتَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِیْنُ
حَتّىٰٓ : یہاں تک کہ اِذَا جَآءَنَا : جب وہ آئے گا ہمارے پاس قَالَ : کہے گا يٰلَيْتَ : اے کاش بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنَكَ : اور تمہارے درمیان بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ : دوری ہوتی دو مشرقوں کی فَبِئْسَ الْقَرِيْنُ : تو بہت برا ساتھی (نکلا)
یہاں تک کہ جب وہ ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا اے کاش ! میرے درمیان اور تیرے درمیان دو مشرقوں کا فاصلہ ہوتا، پس وہ برا ساتھی ہے۔
(1) حتی اذا آء نا قال …دنیا میں ہر وقت شیطان کے ساتھ رہنے کے بعد قیامت کے دن اللہ کے ذکر سے اندھا بننے والا انسان جب اپنے قرین کے ہمراہ اللہ تعالیٰ کے پاس حاضر ہوگا تو حسرت و فاسوس کے ساتھ اس سے کہے گا، کاش ! میرے اور تیرے درمیان دو مشرقوں کی دوری ہوتی۔ دو مشرقوں سے مراد مشرق و مغرب ہیں۔ دونوں کو ”مشرقین“ کہہ دیا ہے ، جیسے ابوبکر و عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کو ”عمرین“ کہہ دیتے ہیں اور کھجور اور پانی کو ”اسودین“ کہہ دیتے ہیں۔ دو مشرق بھی مراد ہوسکتے ہیں، کیونکہ سردیوں میں سورج طلوع ہونے کی جگہ اور گرمیوں میں طلوع ہونے کی جگہ کے درمیان بہت فاصلہ ہے، جیسا کہ فرمایا (رب المشرقین و رب المغربین) (الرحمان :18)”(وہ) دونوں مشرقوں کا رب ہے اور دونوں مغربوں کا رب۔“ (2) فبئس القرین :”ای بئس القرین انت“ یعنی تو برا ساتھی ہے، جس نے دوست بن کر مجھے خراب و برباد کیا اور ہمیشہ کے عذاب میں پھنسا دیا۔ بعض مفسرین نے اسے اللہ تعالیٰ کا کلام قرار دے کر معانی کیا ہے :’ فبئس القرین ھو“ یعنی پس وہ برا ساتھی ہے۔
Top