Tafseer-e-Majidi - Al-Fath : 4
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْۤا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِهِمْ١ؕ وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہی وہ جس نے اَنْزَلَ : اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) فِيْ قُلُوْبِ : دلوں میں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں لِيَزْدَادُوْٓا : تاکہ وہ بڑھائے اِيْمَانًا : ایمان مَّعَ : ساتھ اِيْمَانِهِمْ ۭ : ان کے ایمان کے وَلِلّٰهِ : اور اللہ کیلئے جُنُوْدُ : لشکر (جمع) السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ عَلِيْمًا : جاننے و الا حَكِيْمًا : حکمت والا
وہ (اللہ) وہی تو ہے جس نے اہل ایمان کے دلوں میں تحمل پیدا کیا تاکہ (اپنے ایمان کے ساتھ (ان کا) ایمان اور زیادہ ہوجائے، اور اللہ ہی کی ملک آسمانوں اور زمین کے لشکر ہیں اور اللہ بڑا جاننے والا ہے، بڑا حکمت والا ہے،2۔
2۔ (چنانچہ جب مصلحت قتال کی ہوگی، حکم قتال کا دے گا ہر حکم بہرصورت اس علیم کے علم کا مل اور حکیم کی حکمت کامل کے ماتحت ہی ہوگا۔ (آیت) ” انزل السکینۃ “۔ سکینۃ کے معنی تسلی اور اطمینان قلب کے ہیں۔ اور یہی شے استقامت اور صبروثبات کی بنیاد ہے۔ اور یہ لفظ اہل لغت کی تحقیق میں نور اور قوت اور روح کا جامع ہے۔ السکینۃ السکون والطمانیۃ (کشاف) فسروھا بشیء یجمع نورا وقوتا وروحا بحیث یسکن الیہ ویتسلی بہ الحزین (روح) اس موقع خاص پر سکینت الہی کا ظہور دو طرح پر ہوا۔ ایک تو یوں کہ بیعت جہاد کے وقت صحابہ باوجود اس کے کہ گھر سے نکلتے وقت کوئی خیال بھی قتال کا نہ تھا۔ عزم جہاد پر ثابت ومستعدر رہے دوسرے اس طرح کہ مسلمانوں نے مشرکین مکہ کی سرتاسر بیجا ضد دیکھی، لیکن نہ قابو سے باہر ہوئے، نہ جوش سے بیخود ہوگئے۔ (آیت) ” لیزدادوا ایمانا مع ایمانھم “۔ یعنی اس خاص سکینت قلب کے پیدا ہوجانے سے اہل ایمان کے قلب میں اور زیادہ انشراح اور ان کے نور باطنی میں اور زیادہ نورانیت پیدا ہوگئی اور ایمان استدلالی وبرہانی کے ساتھ ساتھ ایمان عیانی بھی نصیب ہوگیا۔ فیحصل لھم الایمان العیانی والایمان الاستدلالی البرھانی (روح) طاعت میں یہ خاصہ بھی ہے کہ ہر نئے امر طاعت سے نور ایمان میں اور ترقی ہوتی رہتی ہے۔ اور یہ جو ہمارے امام ابوحنیفہ (رح) سے منقول ہے کہ الایمان لا یزداد ولا ینقص (ایمان میں نہ کمی ہوتی ہے نہ بیشی) سو اس سے ان کی مراد ذات ایمان یا نفس ایمان سے ہے جو قابل تجزی نہیں، باقی اس کے اوصاف وآثار میں کمی بیشی تو روزمرہ کا مشاہدہ ہے اور وہی یہاں مراد ہے۔ (آیت) ” وللہ الارض “۔ تو تم اپنی قلت تعداد اور بےسروسامانی پر نظر نہ کرو۔ خدا اپنے خدائی لشکروں سے تمہاری امداد وتائید ہر طرح کرسکتا ہے۔ (آیت) ’ جنود السموت والارض “۔ ان آسمانی اور زمینی لشکروں کے تحت میں فرشتہ اور ساری مخلوقات ہر نوع اور ہر طبقہ کی آگئی۔
Top