Tafseer-e-Majidi - Al-Fath : 3
وَّ یَنْصُرَكَ اللّٰهُ نَصْرًا عَزِیْزًا
وَّيَنْصُرَكَ : اور آپ کو نصرت دے اللّٰهُ : اللہ نَصْرًا : نصرت عَزِيْزًا : زبردست
اور اللہ آپ کو باعزت غلبہ دے،1۔
1۔ (جس سے آپ ﷺ کو آیندہ پھر نہ دبنا پڑے) (آیت) ” فتحامبینا “۔ مراد صلح حدیبیہ ہے۔ جس کے بعد اہل عرب کثرت سے اور جوق جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ نزلت ھذہ السورۃ الکریمۃ لما رجع رسول اللہ ﷺ من الحدیبیۃ (ابن کثیر) والاکثرون علی انہ صلح الحدیبیۃ (معالم) 6 ہجر ؁ ی کا ماہ رجب (مطابق مارچ 628 ء۔ ) تھا۔ اور حکومت مکہ پر ابھی بدستور مشرکین قریش کا قبضہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک خواب کی بناء پر کعبہ کی زیارت وعمرہ کا خیال پیدا ہوا۔ اور آپ تقریبا چودہ سواحرام پوش صحابیوں کی جماعت کے ساتھ طواف کعبہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ شہر مکہ سے تین میل شمال میں ایک مقام حدیبیہ ہے۔ ابھی یہ قافلہ وہیں پہنچا تھا کہ ادھر سے حکومت مکہ کی طرف سے مزاحمت کی اطلاع ملی آپ ﷺ نے آگے بڑھنے کے بجائے وہیں قیام فرمادیا۔ اور ایک قاصد کے ہاتھ اہل مکہ کے پاس پیام کہلا بھیجا کہ ہم لڑنے کو نہیں، بلکہ صرف صلح وآشتی کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کو آئے ہیں۔ جواب نہ آیا۔ تو آپ ﷺ نے حضرت عثمان ؓ کو اپنا سفیر بنا کر بھیجا۔ ان کی واپسی میں بھی تاخیر ہوئی۔ اور یہ خبر مشہور ہوگئی کہ یہ سفیر رسول شہید کردیئے گئے۔ اس پر آپ ﷺ نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر سب صحابہ ؓ سے جہاد کی بیعت لی مشرکوں نے یہ سن کر حضرت عثمان ؓ کو واپس بھیج دیا۔ اب مکہ کے چند سردار بھی آپ ﷺ کی خدمت میں آئے اور گفتگو کے بعد ایک صلح نامہ مرتب ہوا جیس کی اکثردفعات سے بظاہر مسلمانوں کی سبکی ہوتی تھی۔ اور اس لئے بعض صحابیوں کو درمیان میں بہت جوش بھی آگیا۔ مگر آپ ﷺ نے سب کو روکا اور بالآخر مشرکوں ہی کے شرائط پر صلح نامہ مرتب ہوگیا اور آپ مع جاں نثار صحابیوں کے احرام اتار کر بغیر مکہ مکرمہ تک پہنچے واپس آگئے۔ اس ظاہری شکست کو فتح ہی سے نہیں، ” فتح مبین “ سے تعبیر کرنا حق تعالیٰ ہی کا کام تھا، کوئی بندہ تو ایسی خلاف ظاہر پیش خبری کی جرأت کر نہیں سکتا تھا۔ مؤرخین متفق ہیں کہ فتح مکہ، فتح خبیر بلکہ آئندہ کی ساری فتوحات کا سنگ بنیاد یہی صلح حدیبیہ ہے۔ قال الزھری لم یکن فتح اعظم من صلح الحدیبیۃ وذلک ان المشرکین اختلطوابالمسلمین فسمعوا کلامھم فتمکن الاسلام فی قولبوھم اسلم فی ثلاث سنین خلق کثیر وکثربھم سواد الاسلام (معالم) والمراد بہ صلح الحدیبیۃ فانہ حصل بسببہ خیر جزیل وامن الناس واجتمع۔ (آیت) ” لیغفرلک “۔ یعنی اس کثرت واجر وقرب کی برکت سے جو آپ کو اس واقعہ سے حاصل ہوا ہے۔ آپ ﷺ کے مراتب اور بڑھا دے۔ (آیت) ” من ذنبک “۔ رسول اللہ ﷺ معصوم کے سلسلہ میں جہاں کہیں بھی ذنب یا اس کا مرادف آتا ہے مراد اس سے ہمیشہ صرف صوری غلطیاں یا اجتہادی لغزشیں ہوتی ہیں جیسا کہ پیشتر حاشیوں میں کئی بار گزر چکا ہے (آیت) ” یتم نعمتہ علیک “۔ یعنی آپ ﷺ کے ہاتھ پر بکثرت لوگوں کو مسلمان کرکے اور اس طرح آپ کے اجرومراتب قرب میں بدرجہا اضافہ کرکے آپ پر اپنے انعام وافضال کی تکمیل کردے۔ آپ کی اجتہادی لغزشوں ہی سے درگزر نہ ہو بلکہ جو سلسلہ آپ ﷺ پر انعام وافضال کا چلا رہا ہے۔ اس کی بھی تکمیل ہوجائے۔ (آیت) ” نعمتہ “۔ آپ ﷺ کو نبوت ملی، قرآن ملا، معجزات ملے، علوم ومعارف ملے، یہ سب اسی انعام وافضال الہی کی فردیں ہیں۔ (آیت) ” یھدیک صراط مستقیما “۔ یعنی آئندہ بلاکسی روک ٹوک بلاحکومت مکہ کی طرف سے کسی مزاحمت کے آپ کے قدم آگے بڑھتے رہیں۔ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ اس واقعہ کے بعد سے پھر سرداران مکہ میں آپ سے مقابلہ کا دم خم باقی نہ رہا۔ (آیت) ” یھدیک۔ ینصرک “۔ نکتہ سنجوں نے کہا ہے کہ یھدیک سے مراد نفی مغلوبیت یا دفع مضرت ہے۔ اور (آیت) ” ینصرک “۔ کا حاصل اثبات قابلیت یا حصول منفعت ہے۔ (آیت) ” لیغفرلک “۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ ل تعلیل کے کے مرادف ہے۔ معناہ انا فتحنالک فتحا مبینا ل کے یجتمع لک مع المغفرۃ تمام النعمۃ فی الفتح (معالم) یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا تعلق اس آیت سے ہے۔ واستغفرلذنبک ولل مومنین وال مومن ات۔ قال الحسن بن الفضل ھو مردود الی قولہ واستغفر لذنبک (معالم) یہ بھی کہا گیا ہے کہ فتح سبب مغفرت نہیں۔ بلکہ لیغفرلک سے متصل قبل فاستغفر محذوف ہے۔ الفتح لیس بسبب للمغفرۃ والتقدیر انا فتحنالک فتحا مبینا فاستغفرلیغفرلک (مدارک)
Top