Tafseer-e-Majidi - Al-Hujuraat : 10
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠   ۧ
اِنَّمَا : اسکے سوا نہیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) اِخْوَةٌ : بھائی فَاَصْلِحُوْا : پس صلح کرادو بَيْنَ : درمیان اَخَوَيْكُمْ ۚ : اپنے بھائیوں کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
بیشک مسلمان (آپس میں) بھائی ہی بھائی ہیں،14۔ سو اپنے دوبھائیوں کے درمیان اصلاح کردیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم پر رحمت کی جائے،15۔
14۔ (اور جب بھائی ہی ہیں، تو بھائیوں بھائیوں میں لڑائی ہی کیسی) السام یعنی دین فطرت نے ایک طرف تو غربت، امارت وغیرہ کے مختلف طبقات قائم رکھے اور ان کے مٹاڈالنے کی خلاف فطرت کوشش میں قوت اور وقت کو ضائع نہیں کیا، لیکن دوسری طرف یہ بھی بتادیا کہ دین کا اشتراک ہر مادی، مالی نسبی، نسلی تفریق و امتیاز سے بالاتر ہے اور بڑے چھوٹے امیر غریب شریف غیر شریف سب کو اخوت کے رشتہ میں پر وکر صحیح اور سچی سوشلزم (اشتراکیت) کی بنیاد قائم کردی۔ یہیں سے یہ بھی نکل آیا کہ مسلم قومیت کی بنیاد نسلی، وطنی، لسانی وغیرہ نہیں۔ صرف اعتقادی ہے۔ اور اشتراک واخوت کا سنگ بنیاد صرف وحدت کلمہ ہے۔ (آیت) ” اخوۃ “۔ اخوت کا رشتہ توانتہائی محبت کا مظہر ہے۔ اس کے استحضار کے بعد پھر کیسا جدال، کیسا قتال ؟ اخوۃ، اخ کی جمع، اخوۃ تو حقیقی بھائیوں کے لئے ہے، رشتے ناتے کے بھائیوں کے لئے اخوان آتی ہے۔ قرآن نے یہاں اخوۃ لاکر گویا بتا دیا کہ مسلمانوں کا ایک دوسرے سے تعلق و رشتہ بالکل بھائیوں کا ہے۔ قال بعض اھل اللغۃ الاخوۃ جمع الاخ من النسب والاخوان جمع الاخ من الصداقۃ فاللہ تعالیٰ قال انماالمومنون اخوۃ تاکید اللامر واشارۃ الی ان بینھم مابین الاخوۃ من النسب والاسلام کالاب (کبیر) (آیت) ” انما “۔ کے کلمہ حصر نے اسے صاف کردیا کہ یہ رشتہ اخوت صرف مومن ہی مومن کے درمیان ہے، مومن و کافر کے درمیان نہیں ہوسکتا۔ انما للحصر اے لااخوۃ الابین المومنین واما بین المومن والکافر فلالان الاسلام وھو الجامع (کبیر) 15۔ اس میں کمال ترغیب ہے اصلاح بین المسلمین کی۔ (آیت) ” واتقوا اللہ “۔ تقوی ہی کی ایک اعلی فرد اصلاح بین المسلمین ہے۔ (آیت) ” لعلکم ترحمون “۔ رحمت الہی کا ترتب اسی تقوی شعاری پر ہوگا۔
Top