Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 118
اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ١ۚ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
اِنْ : اگر تُعَذِّبْهُمْ : تو انہیں عذاب دے فَاِنَّهُمْ : تو بیشک وہ عِبَادُكَ : تیرے بندے وَاِنْ : اور اگر تَغْفِرْ : تو بخشدے لَهُمْ : ان کو فَاِنَّكَ : تو بیشک تو اَنْتَ : تو الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
تو اگر انہیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں۔ ،358 ۔ اور اگر تو انہیں بخش دے تو بھی تو زبردست ہے حکمت والا ہے،359 ۔
358 ۔ (اور تو ان کا مالک ومختار ہے، تو جو چاہے ان کے ساتھ سزا کا معاملہ کرے، میں دخل دینے کی مجال نہیں رکھتا) 359 ۔ تو ان کی مغفرت ہی کردینا چاہے تو کون روک سکتا ہے۔ تو سب پر غالب، (آیت) ” العزیز “۔ ہے تیرا ارادہ سب پر حاکم ومقتدر لیکن تو اسی کے ساتھ (آیت) ” الحکیم “۔ بھی تو ہے، تیرا کوئی فیصلہ خلاف حکمت ہو نہیں سکتا، تو کرے گا وہی جو تیرے آئین حکمت ومصلحت کے مطابق ہوگا۔ میں ایک بندہ ہو کر اس میں دخل دینے والا کون ؟ یعنی انت قادر علی ما ترید، حکیم فی کل ما تفعل لا اعتراض لا حد علیک فمن انا والخوض فی احوال الربوبیۃ (کبیر) واضح رہے کہ یہ ساری گفتگو قیامت میں ہوگی۔ جہاں کافروں اور منکران دین حق کے لیے کوئی محل ہی شفاعت کا نہیں۔ یہیں سے یہ ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے اس کلام میں ان کے پیغمبر جلیل القدر ہونے کے باوجود کوئی شائبہ شفاعت کا نہیں۔ بلکہ مقصود تمامتر اللہ کی طرف تفویض ہے۔ ومقصودہ منہ تفویض الامور کلھا الی اللہ وترک التعرض والاعتراض بالکلیۃ (کبیر) دل ذلک علی ان غرضہ تفویض الامر بالکلیۃ الی اللہ تعالیٰ وترک التعرض لھذا الباب من جمیع الوجوہ (کبیر) ضمنا حضرت مسیح (علیہ السلام) کے اس کلام سے تردید بھی مسیحیوں کے اس عقیدہ کی نکل آئی کہ قیامت میں عدالت کا کام خدا کے نہیں، خدا کے بیٹے کے ہاتھ میں ہوگا، چناچہ موجودہ انجیل میں ہے :۔ ” باپ کسی کی بھی عدالت نہیں کرتا، بلکہ اس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپرد کیا ہے “ (یوحنا۔ 5:23)
Top