Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 13
قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا یَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِیْهَا فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ
قَالَ : فرمایا فَاهْبِطْ : پس تو اتر جا مِنْهَا : اس سے فَمَا : تو نہیں يَكُوْنُ : ہے لَكَ : تیرے لیے اَنْ : کہ تَتَكَبَّرَ : تو تکبر کرے فِيْهَا : اس میں (یہاں) فَاخْرُجْ : پس نکل جا اِنَّكَ : بیشک تو مِنَ : سے الصّٰغِرِيْنَ : ذلیل (جمع)
(اللہ نے) فرمایا تو اتر اس (جنت) سے تو اس لائق نہیں کہ اس (جنت) میں رہ کر بڑائی کرتا رہے بس تو نکل بیشک تو ذلیلوں میں سے ہے،16 ۔
16 ۔ یعنی یہ جگہ تو خاشعین اور فرمانبرداروں کے لیے ہے، تجھ بڑائی ہانکنے والے کا یہاں کیا کام، تو نکل یہاں سے حقیر و خوار ہوکر۔ (آیت) ” انک من الصغرین “۔ فقہاء ومفسرین نے اس سے یہ نکالا ہے کہ معصیت ونافرمانی میں بندہ کی ذلت ہے۔ دل ھذا ان من عصی مولاہ فھو ذلیل “ (قرطبی) (آیت) ” فاھبط منھا “۔ یہ نکلنے اور نیچے اترنے کا حکم کہاں سے ہورہا ہے ؟ ہبوط آسمان سے زمین کی طرف بھی مراد ہوسکتا ہے۔ قیل من السماء الی الارض (معالم) ای من السماء (قرطبی) لیکن اکثر نے ضمیر ھا جنت کی جانب سمجھی ہے۔ ؛ اور قول اصح یہی ہے کہ حکم جنت سے نکل جانے کا مل رہا ہے۔ قال کثیر من المفسرین عائد الی الجنۃ (ابن کثیر) ۔ ای من الجنۃ (معالم) قال ابن عباس یرید من الجنۃ (کبیر) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ کبر کی بنا پر درگارالہی سے نکالا جانا، اس کی دلیل ہے کہ کبر وصول حق سے مانع ہے۔
Top