Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 28
وَ كَتَبْنَا لَهٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْعِظَةً وَّ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ١ۚ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّ اْمُرْ قَوْمَكَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا١ؕ سَاُورِیْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ
وَكَتَبْنَا : اور ہم نے لکھدی لَهٗ : اس کے لیے فِي : میں الْاَلْوَاحِ : تختیاں مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز مَّوْعِظَةً : نصیحت وَّتَفْصِيْلًا : اور تفصیل لِّكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کی فَخُذْهَا : پس تو اسے پکڑ لے بِقُوَّةٍ : قوت سے وَّاْمُرْ : اور حکم دے قَوْمَكَ : اپنی قوم يَاْخُذُوْا : وہ پکڑیں (اختیار کریں) بِاَحْسَنِهَا : اس کی اچھی باتیں سَاُورِيْكُمْ : عنقریب میں تمہیں دکھاؤں گا دَارَ الْفٰسِقِيْنَ : نافرمانوں کا گھر
اور ہم نے ان کو تختیوں پر ہر چیز لکھ دی نصیحت اور تفصیل ہر چیز سے متعلق،193 ۔ تو انہیں قوت کے ساتھ پکڑ لو اور اپنی قوم کو حکم دو کہ اس کے اچھے اچھے (احکام) کو لازم کرلیں،194 ۔ عنقریب میں تم لوگوں کو نافرمانوں کا مقام دکھا دوں گا،195 ۔
193 ۔ یعنی مسائل و احکام دین سے متعلق ہر ضروری تفصیل ان میں درج کردی گئی۔ (آیت) ” من کل شیء “۔ سے ساری دنیا کی چیزیں مراد نہیں بلکہ وہی ومسائل دین مراد ہیں۔ ای ممایحتاج الیہ فی دینہ من الاحکام (قرطبی) ولا شبھۃ فیہ انہ لیس علی العموم بل المراد من کل مایحتاج الیہ موسیٰ وقومہ فی دینھم (کبیر) من یہاں مزیدہ ہے نہ کہ تبعیضیہ من مزید لاتبعیضیۃ (روح) (آیت) ” لہ “۔ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے۔ (آیت) ” الالواح “۔ انہی لکھی ہوئی تختیوں کا نام توریت پڑا۔ اجمال کی کسی قدر تفصیل خود توریت میں ہے :۔ اور موسیٰ پھر کر پہاڑ سے اتر گیا اور شہادت کے دونوں تختے اس کے ہاتھ میں تھے اور وہ تختے لکھے ہوئے تھے دونوں طرف ادھر اور ادھر لکھے ہوئے تھے اور وہ تختے خدا کے کام سے تھے اور جو لکھا ہوا سو خدا کا لکھا ہوا اور ان پر کندہ کیا ہوا تھا۔ (خروج 32: 15) (آیت) ” موعظۃ وتفصیلالکل شیء “۔ جارومجرور سے بدل ہے یعنی مواعظ و تفصیل احکام میں سے ہر چیز وبدل من الجارو والمجرور اے کتبنا لہ کل شیء من المواعظ و تفصیل الاحکام والی ھذا ذھب غیر واحد من المعربین (روح) 194 ۔ یعنی اس کے سارے احکام کو، کہ اچھے تو اس کے سب ہی احکام ہیں۔ (آیت) ” خذھا بقوۃ “۔ یعنی اے موسیٰ (علیہ السلام) کوشش واہتمام کے ساتھ ان پر عمل کرو۔ 195 ۔ (اے قوم اسرائیل) خطاب ابھی صیغۂ واحد میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تھا اب صیغہ جمع میں امت موسوی سے ہورہا ہے۔ (آیت) ” الفسقین “۔ سے مراد سرکش وبے دین عمالقہ ہیں۔ جو اس وقت تک ارض کنعان پر قابض تھے۔ (آیت) ” ایۃ “ کو بشارت کے معنی میں بھی لیاجاسکتا ہے کہ عنقریب تمہیں تمہارے دشمنوں کے ملک پر قابض ومالک کو دیا جائے گا۔ ای سیورثھم ارض اعداءھم ودیارھم (کبیر) اور عبرت کا پہلو بھی نکل سکتا ہے کہ تم اپنے دشمنوں کے ملک میں داخل ہوگے۔ ان کے انجام سے عبرت حاصل کرو گے چناچہ قتادہ تابعی سے یہی معنی مروی ہیں۔ فادخلکم الشام واریکم منازل الکافرین الذین کانوا متوطنین فیھا من الجبابرۃ والعمالقۃ لتعتبروابھا (کبیر)
Top