Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 200
وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَاِمَّا : اور اگر يَنْزَغَنَّكَ : تجھے ابھارے مِنَ : سے الشَّيْطٰنِ : شیطان نَزْغٌ : کوئی چھیڑ فَاسْتَعِذْ : تو پناہ میں آجا بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنَّهٗ : بیشک وہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اگر آپ کو کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آنے لگے تو (فورا) اللہ کی پناہ مانگ لیا کیجیے وہ خوب سننے والا ہے اور خوب جاننے والا ہے،293 ۔
293 ۔ اس لیے آپ کے استعاذہ کو خوب سنے گا اور آپ کے مقصود کو خوب سمجھے گا۔ (آیت 9” من الشیطن نزغ “۔ نزغہ شیطانی سے یہاں مراد طبیعت میں اس غصہ واشتعال کا پیدا ہونا اور اس کے مقتضا پر عمل کرنا ہے، جو مشرکوں اور جاہلوں کی پیہم اشتعال انگیزیوں سے پیدا ہونا تقریبا ایک امر طبعی تھا لیکن اس پر عمل کرنے سے مصالح انتظامی میں فرق پڑنے کا بھی احتمال تھا۔ نزغ الشیطان وساوسہ (قرطبی) الا غواء بالوسوسۃ و اکثر ما یکون عند الغضب (جصاص) (آیت) ” اما ینزغنک من الشیطن نزغ “۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ آیا پیغمبر کے لیے نزع شیطانی ممکن بھی ہے ؟ سیدھا اور صاف جواب یہ کہ ممکن کیوں نہیں پیغمبر سے صرف صدور معصیت ممتنع ہے، گناہ کی رائے وتجویز کا پیغمبر کے سامنے پیش ہونا، چاہے وہ انسان کی طرف سے ہو یا شیطان کی طرف سے، یہ تو کسی درجہ میں بھی ممتنع نہیں، اور نزغ شیطان کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں کہ شیطان نے ایک رائے آپ ﷺ کے سامنے پیش کی اور قرآن مجید تو ہر بری تحریک کو شیطان ہی کی جانب منسوب کرتا ہے۔ (آیت) ” فاستعذ باللہ “۔ آپ ﷺ اللہ سے پناہ مانگئے اور خو دآپ ﷺ کو پناہ میں لے لے گا۔ یعنی اس عارضی وسوسہ کو آپ سے دور کردے گا۔ مفسر تھانوی (رح) نے یہاں یہ نکتہ خوب لکھا ہے کہ حضور ﷺ کی لطافت قلب اسی سے ظاہر ہے کہ جو وسوسہ شیطانی محض مس کے درجہ میں ہوتا تھا (چنانچہ اگلی آیت میں ایسے ہی موقع کے لیے لفظ مس آیا ہے اور وہاں ذکر صالحین ومتقین امت کا ہے) تو حضور ﷺ کے قلب مبارک کو اس کی اذیت مثل نزع کے محسوس ہوتی تھی، ایراد النزغ فی موضع والمس فی اخر لعلہ للاشارۃ الی ان لطافۃ قلبہ ﷺ ازید من غیرہ حیث یکون الوسوسۃ التی لایکون ورودہ اکثر من المس نزغا وایذاء شدیدا فی حقہ ولذا اکد باسنادہ الی النزغ نفسہ مبالغۃ (تھانوی (رح)
Top