Tafseer-e-Majidi - Al-Anfaal : 39
وَ قَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ١ۚ فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
وَقَاتِلُوْهُمْ : اور ان سے جنگ کرو حَتّٰي : یہانتک لَا تَكُوْنَ : نہ رہے فِتْنَةٌ : کوئی فتنہ وَّيَكُوْنَ : اور ہوجائے الدِّيْنُ : دین كُلُّهٗ : سب لِلّٰهِ : اللہ کا فَاِنِ : پھر اگر انْتَهَوْا : وہ باز آجائیں فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِمَا : جو وہ يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فساد (عقیدہ) باقی نہ رہ جائے اور دین سارے کا سارا اللہ ہی کے لیے ہوجائے،54 ۔ لیکن اگر یہ باز آجائیں تو اللہ خوب دیکھنے والا ہے ان کے عملوں کا،55 ۔
54 ۔ (اور یہ موقوف ہے قبول اسلام پر) ای یضمحل عنھم کل دین باطل ویبقی فیھم دین الاسلام وحدہ (مدارک) ای تضمحل الادیان الباطلۃ کلھا اما بھلاک اھلھا جمیعا اوبرجوعھم عنھا خشیۃ القتل (روح) اس پر حاشیے اسی مضمون کی آیت پر پارۂ دوم میں گزرچکے۔ قاتلوھم “۔ ضمیر۔ ھم، مشرکین عرب کی جانب ہے۔ (آیت) ’ حتی لا تکون فتنۃ “۔ یعنی شرک باقی نہ رہ جائے الی ان لایوجدفیھم شرک قط (مدارک) اے کفر (قرطبی) قال ابن عباس والحسن حتی لایکون شرک (جصاص) یہ تفسیر فقہ حنفی کے مطابق ہے بعض ائمہ نے فتنۃ سے مراد فساد وحرب لی ہے۔ (آیت) ” ویکون الدین کلہ للہ “۔ فقہاء نے آیت کے عموم سے جملہ اصناف کفار کے ساتھ قتال واجب ٹھیرایا ہے بجز انکے جن سے استثناء کی دلیل کتاب وسنت سے مل جائے، یدل علی وجوب قتل سائر اصناف اھل الکفر الا ما خصہ الدلیل من الکتاب والسنۃ (جصاص) 55 ۔ اور وہی احتساب کے لئے کافی ہے، بندوں کو بہت زیادہ ٹٹول اور کرید کی حاجت نہیں) (آیت) ” فان انتھو “۔ یہ باز آجانا کس چیز سے ہے ؟ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک مراد کفر سے باز آجانا اور اسلام قبول کرلینا ہے۔ اے عن الکفر واسلموا (مدارک) بعض دوسرے ائمہ نے قتال سے باز آجانا مراد لیا ہے۔ (مفصل حاشیے پارۂ دوم میں گزر چکے)
Top