Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 12
وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ فَقَاتِلُوْۤا اَئِمَّةَ الْكُفْرِ١ۙ اِنَّهُمْ لَاۤ اَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنْتَهُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر نَّكَثُوْٓا : وہ توڑ دیں اَيْمَانَهُمْ : اپنی قسمیں مِّنْۢ بَعْدِ : کے بعد سے عَهْدِهِمْ : اپنا عہد وَطَعَنُوْا : اور عیب نکالیں فِيْ : میں دِيْنِكُمْ : تمہارا دین فَقَاتِلُوْٓا : تو جنگ کرو اَئِمَّةَ الْكُفْرِ : کفر کے سردار اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَآ : نہیں اَيْمَانَ : قسم لَهُمْ : ان کی لَعَلَّهُمْ : شاید وہ يَنْتَهُوْنَ : باز آجائیں
اور اگر یہ لوگ اپنی قسموں کو اپنے عہد کے بعد توڑ ڈالیں اور تمہارے دین پر طعن کریں تو تم قتال کرو (ان) پیشوایان کفر سے کہ (اس صورت میں) ان کی قسمیں باقی نہیں رہیں تاکہ یہ لوگ بازآجائیں،21 ۔
21 ۔ (اپنے عقاید کفریہ سے) (آیت) ” وان نکثوا ایمانھم من بعد عھدھم “۔ یعنی یہ عہد شکنی کرکے کے بجائے ایمان لانے کے کفر پر قائم رہیں۔ (آیت) ” وطعنوا فی دینکم “۔ یہ علامت مزید ان کے کفر وعناد کی ملی۔ طعن کے لغوی معنی نیزہ مارنے کے ہیں۔ طعن، کا اطلاق سنجیدہ، علمی، عقلی اختلاف رائے و عقیدہ پر نہیں ہوتا۔ طعن کہتے ہی ایسی بات کو ہیں جو دل کو چھید دے زخمی کردے، طعن فی الدین سے مقصود تحقیق کسی درجہ میں بھی نہیں ہوتی، بلکہ دین کی توہین اور اہل دین کی دلآزاری۔ ایسی زبان درازی اس ” روشن خیال “ بیسویں صدی میں بھی ہر قانون میں جرم ہے۔ ذمی جس وقت دین اسلام پر زبان طعن دراز کرتا ہے، معاہدہ امن سے نکل جاتا ہے، اور اس کا قتل جائز ہوجاتا ہے۔ اذا طعن الذمی فی دین الاسلام طعنا ظاھرا جاز قتلہ، لان العھد معقود معہ علی ان لا یطعن فاذا طعن فقد نکث عہدہ وخرج من الذمہ (مدارک) (آیت) ” قاتلوا ائمۃ الکفر “۔ یہ سرداروں کے قتل کا حکم عوام کے قتل کی نفی نہیں ہے۔ سرداروں کی تصریح اہتمام وخصوصیت وتاکید کے لئے ہے، ان کے قتل سے عوام خود بخود یا منتشر اور یا مطیع ومنقاد ہونے لگیں گے۔ اے قاتلوا الکفار (بحر) وخص الائمۃ بالذکر لانھم ھم الذین یحرضون الاتباع علی البقاء علی الکفر (بحر) تخصیصھم بالذکر لان قتلھم اھم لا لانہ لایقتل غیرھم (روح) سرداران قریش نے معاہد کے خلاف بنی خزاعہ کے مقابلہ میں بنی بکر کو مدد دی تھی، آیت میں اشارہ اسی جانب ہے۔ طعن فی الدین کے سلسلہ میں توریت کا حکم ملا حظہ ہو :۔ ” اور وہ جو خداوند کے نام پر کفر بکے گا جان سے مارا جائے گا۔ ساری جماعت اسے سنگسار کرے گی خواہ وہ مسافر ہو، خواہ پردیسی ہو، جب اس نے اس کے نام پر کفر کیا تو وہ جان سے ضرور مارا جائے گا۔ “ (احبار۔ 24: 16) آیت سے ظاہر ہورہا ہے کہ معاہدجب معاہدہ کی کسی دفعہ کی بھی خلاف ورزی کرے یا دین پر طعن کرے تو وہ ناقض عہد ہوجائے گا فیہ دلالۃ علی ان اھل العھد متی خالفوا شیئا مما عوھدوا علیہ وطعنوا فی دیننا فقد نقضوا العھد (جصاص) ۔
Top