Tafheem-ul-Quran - At-Tawba : 12
وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ فَقَاتِلُوْۤا اَئِمَّةَ الْكُفْرِ١ۙ اِنَّهُمْ لَاۤ اَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنْتَهُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر نَّكَثُوْٓا : وہ توڑ دیں اَيْمَانَهُمْ : اپنی قسمیں مِّنْۢ بَعْدِ : کے بعد سے عَهْدِهِمْ : اپنا عہد وَطَعَنُوْا : اور عیب نکالیں فِيْ : میں دِيْنِكُمْ : تمہارا دین فَقَاتِلُوْٓا : تو جنگ کرو اَئِمَّةَ الْكُفْرِ : کفر کے سردار اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَآ : نہیں اَيْمَانَ : قسم لَهُمْ : ان کی لَعَلَّهُمْ : شاید وہ يَنْتَهُوْنَ : باز آجائیں
اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ پھر اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین پر حملے کرنے شروع کر دیں تو کُفر کے علمبرداروں سے جنگ کرو کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ شاید کہ (پھر تلوار ہی کے زور سے) وہ باز آئیں گے۔15
سورة التَّوْبَة 15 اس جگہ سیاق وسباق خود بتارہا ہے کہ قسم اور عہد و پیمان سے مراد کفر چھوڑ کر اسلام قبول کرلینے کا عہد ہے۔ اس لیے کہ ان لوگوں سے اب کوئی اور معاہدہ کرنے کا تو کوئی سوال باقی ہی نہ رہا تھا۔ پچھلے سارے معاہدے وہ توڑ چکے تھے۔ ان کی عہد شکنیوں کی بنا پر ہی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے برأت کا اعلان انہیں صاف صاف سنایا جا چکا تھا۔ یہ بھی فرما دیا گیا تھا کہ آخر ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی معاہدہ کیسے ہوسکتا ہے۔ اور یہ فرمان بھی صادر ہوچکا تھا کہ اب انہیں صرف اسی صورت میں چھوڑا جاسکتا ہے کہ یہ کفر و شرک سے توبہ کر کے اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کی پابندی قبول کرلیں اس لیے یہ آیت مرتدین سے جنگ کے معاملہ میں بالکل صریح ہے۔ دراصل اس میں اس فتنہ ارتداد کی طرف اشارہ ہے جو ڈیڑھ سال بعد خلافت صدیقی کی ابتداء میں برپا ہوا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے اس موقع پر جو طرز عمل اختیار کیا وہ ٹھیک اس ہدایت کے مطابق تھا جو اس آیت میں پہلے ہی دی جا چکی تھی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب ”مرتد کی سزا اسلامی قانون میں“)۔
Top