Tafseer-e-Mazhari - Yunus : 7
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِهَا وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہمارا ملنا وَرَضُوْا : اور وہ راضی ہوگئے بِالْحَيٰوةِ : زندگی پر الدُّنْيَا : دنیا وَاطْمَاَنُّوْا : اور وہ مطمئن ہوگئے بِهَا : اس پر وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ ھُمْ : وہ عَنْ : سے اٰيٰتِنَا : ہماری آیات غٰفِلُوْنَ : غافل (جمع)
جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی توقع نہیں اور دنیا کی زندگی سے خوش اور اسی پر مطئمن ہو بیٹھے اور ہماری نشانیوں سے غافل ہو رہے ہیں
ان الذین لا یرجون لقآء نا بیشک جو لوگ ہم سے ملنے کے امیدوار نہیں۔ ملنے سے مراد ہے ثواب کیونکہ اللہ کی ملاقات اور اس کا دیدار سب سے بڑا ثواب ہے۔ ورضوا بالحیوۃ الدنیا اور دنیوی زندگی پر مگن ہیں ‘ یعنی آخرت کی زندگی پر دنیوی زندگی کو انہوں نے ترجیح دے رکھی ہے۔ واطمانوا بھا اور اسی زندگی پر مطمئن ہو بیٹھے ہیں۔ یعنی اسی زندگی پر وہ ٹھہر گئے ہیں ‘ اسی کی لذتیں اور آرائشیں ان کا منتہائے قصد ہیں اور آخرت میں کام آنے والے اعمال ترک کرچکے ہیں۔ والذین ھم عن ایٰتنا غٰفلون۔ اور وہ لوگ جو ہماری (قدرت و صنعت کی) نشانیوں سے غافل ہیں۔ ترجمۂ مذکورۂ بالا کی صورت میں اوّل الذکر الذین سے مراد ہوں گے یہود و نصاریٰ جو اللہ کی ہستی کو تو مانتے ہیں ‘ حشرنشر کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں ‘ لیکن اسکے ساتھ ہی دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں ‘ ثواب آخرت سے مایوس ہیں۔ ان کا مقصد صرف دنیوی لذت اندوزی اور راحت کوشی ہے اور مؤخر الذکر الذین سے مراد ہیں وہ لوگ جو اللہ کی توحید کو نہیں مانتے اور حشر و جزا کا عقیدہ نہیں رکھتے۔ بیضاوی نے لکھا ہے : اول الَّذِیْنَ سے مراد ہیں وہ لوگ جو قیامت کے منکر ہیں ‘ جزائے آخرت کی ان کو امید ہی نہیں۔ زندگی صرف اسی دنیوی زندگی کو جانتے ہیں اور مؤخر الذکر الَّذِیْنَ سے مراد ہیں وہ لوگ جن کو محبت دنیا نے تصور آخرت اور تیاری آخرت سے غافل بنا رکھا ہے۔ بعض اہل تفسیر کے نزدیک دونوں الَّذِیْنَ سے مراد عام کفار ہی ہیں لیکن تعدد اوصاف کی وجہ سے دونوں کے درمیان حرف عطف ذکر کردیا گیا ہے (جیسے الی الملک القرم وابن الہمام ولیث الکتیبۃ فی المزدحم میں سب اوصاف یعنی قرم ‘ ابن الہمام اور لیث الکتیبۃ کا مصداق الملک ہی ہے لیکن اوصاف کے تغایر کو ذات کے تغایر کے قائم مقام قرار دے کر اوصاف کے درمیان حروف عطف ذکر کئے گئے ہیں اسی طرح آیات میں بھی تعداد اوصاف کو تعدد ذوات کا درجہ دے کر بیچ میں حروف عطف ذکر کردیا گیا ہے) اس امر پر بھی تنبیہ ہے کہ چونکہ وہ دونوں اصاف قبیحہ کے حامل اور جامع ہیں ‘ اسلئے مستحق وعید ہیں۔ بغوی نے لکھا ہے : رجائکا معنی خوف بھی ہے اور طمع بھی۔ اس تقدیر پر آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کو نہ ہمارے عذاب کا خوف ہے نہ ثواب کی امید (گویا ہمارے سامنے آنے کا نہ ان کو کوئی اندیشہ ہے نہ کوئی امید) حضرت ابن عباس نے فرمایا : عَنْ اٰیٰاتِنَا یعنی محمد رسول اللہ ﷺ اور قرآن سے غافل ہیں ‘ ان کی طرف سے رخ موڑے ہوئے ہیں۔
Top