Tafseer-e-Mazhari - At-Takaathur : 8
ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۠   ۧ
ثُمَّ : پھر لَتُسْئَلُنَّ : تم پوچھے جاؤگے يَوْمَئِذٍ : اس دن عَنِ النَّعِيْمِ : نعمتوں کی بابت
پھر اس روز تم سے (شکر) نعمت کے بارے میں پرسش ہو گی
ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم . پھر اس روز تم سے نعمت کی باز پرس کی جائے گی کہ تم نے نعمتوں کا شکر کیوں نہیں کیا اور ناشکری کیوں کی۔ بغوی نے کہا جن نعمتوں میں وہ تھے ‘ قیامت کے دن ان کے شکر کی باز پرس ان سے کی جائیگی۔ مقاتل نے کہا : کفار مکہ کو دنیا میں مال و منال حاصل تھا مگر انہوں نے نعمتیں دینے والے کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ دوسروں کی پوجا کی ‘ قیامت کے دن اللہ کا شکر نہ کرنے پر انکو عذاب ہوگا۔ یہی قول حسن بصری کا ہے اور حضرت ابن مسعود ؓ سے بھی مرفوعاً یہی مروی ہے ‘ گویا آیت میں انہی کفار کو خطاب ہے جو تکاثر کی وجہ سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لَتَرَوُنَّ سے آخر سورت تک سب لوگوں کو عمومی خطاب ہو جیسے آیت : ان منکم الاواردھا میں ہے۔ حدیث میں بھی آیا ہے کہ قبر کے اندر مؤمن کو اوّل وہ دوزخ والی جگہ دکھائی جاتی ہے جس کے عوض میں جنت والی جگہ اس کو عطا کی جاتی ہے تاکہ وہ زیادہ شکر گزار ہو۔ فائدہ صرف اہل تکاثر سے نعمتوں کی باز پرس ہوگی ‘ یہ عبارت قرآن کی رفتار سے بھی معلوم ہو رہا ہے اور ایک تفسیری مطلب بھی اسی طرح بیان کیا گیا ہے لیکن متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ کافر و مؤمن ہر شخص سے سوال ہوگا اور نعمت کی باز پرس کی جائے گی۔ حضرت ابن مسعود کی روایت میں رسول اللہ ﷺ کا قول (اس آیت کی تشریح میں) آیا ہے امن اور صحت کی بھی (باز پرس ہوگی) ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بھی آیت کی تفسیر میں فرمایا : آنکھ ‘ کان اور جسمانی صحت کے متعلق اللہ بندوں سے سوال کرے گا کہ کن مصارف میں ان کو استعمال کیا۔ (ابن ابی حاتم) اسی آیت کی تفسیر میں مجاہد (رح) نے کہا : دنیا کی ہر لذت کا سوال ہوگا۔ فریابی اور ابو نعیم۔ قتادہ نے تفسیر آیت میں کہا : اللہ نے جو بھی نعمت عطا فرمائی ہے اس کی باز پرس کرے گا۔ عبدالرزاق۔ حضرت ابو قلابہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے کچھ لوگ گھی اور شہد ملا کر میدہ کی روٹی کے ساتھ کھائیں گے۔ (احمد فی کتاب الزہد) حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم سے کس نعمت کی بازپرس ہوگی (کھانے ‘ پینے کو صرف) پانی اور کھجوریں ہیں اور دشمن سامنے (لڑنے) کو موجود ہے اور تلواریں ہمارے کندھوں پر (آویختہ) ہیں۔ فرمایا : خوب سمجھ لو عنقریب ایسا ہوگا (یعنی نعمتیں ملیں گی) ۔ (ترمذی) عکرمہ کی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ہم کو کونسی نعمت میسر ہے صرف جو کی روٹی اور وہ بھی آدھے پیٹ۔ اللہ نے وحی بھیجی (کہ ان سے کہہ دو گرم ریت سے بچنے کے لیے) کیا تم جوتے نہیں بناتے اور کیا ٹھنڈا پانی نہیں پیتے۔ (ابن ابی حاتم) حضرت علی ؓ نے فرمایا : جو گیہوں کی روٹی کھاتا ہے اور (سردی و گرمی سے بچنے کے لیے) اس کو سایہ میسر ہے اور صاف پانی پیتا ہے تو یہ ایسی نعمت ہے جس کی باز پرس ہوگی۔ حاکم نے مستدرک میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کردہ ایک حدیث نقل کی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر کا حضرت ابو الہیثم کے مکان پر جانا اور وہاں کھجوریں اور گوشت کھانا اور پانی پینا مذکور ہے۔ اسی حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد بھی ہے کہ یہی وہ نعیم ہے جس کے متعلق قیامت کے دن تم سے باز پرس ہوگی۔ جب صحابہ ؓ نے تکبیر کہی تو فرمایا : جب تم کو ایسی چیز مل جائے اور اپنے ہاتھوں سے روٹی کھانا شروع کرو تو بِسْمِ اللہ وَ عَلٰی بَرَکَۃِ اللہ کہا کرو اور جب کھا چکو تو کہا کرو : اَلْحَمْدُِ ﷲِ الَّذِیْ ھُوَ اَشْبَعَنَا وَاَرْوَانَا وَاَنْعَمَ عَلَیْنَا وَاَفْضَلَ ۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت میں اس قصہ کے ذیل میں اسی طرح مذکور ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : باہم علمی خیر خواہی کرو ‘ کوئی کسی سے علم کو نہ چھپائے۔ علمی خیانت ‘ مالی خیانت سے زیادہ سخت ہے۔ اللہ تم سے اس کی بازپرس کرے گا۔ (طبرانی و اصبہانی) حضرت ابو درداء کی کی روایت ہے ‘ سب سے اوّل بندہ سے سوال کیا جائے گا کہ جو کچھ تو جانتا تھا ‘ اس کے سلسلے میں تو نے کیا عمل کیا۔ (احمد و ابن المبارک) حضرت ابن عمر کی مرفوع روایت ہے کہ بندہ سے جس طرح مال کے متعلق باز پرس ہوگی اسی طرح اسکے مرتبہ کے متعلق بھی ہوگی۔ (طبرانی) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : بندہ اگر ایک قدم بھی چلے گا تو اس سے پوچھا جائیگا کہ اس قدم اٹھانے سے تیرا مقصد کیا تھا ؟ (ابونعیم) حضرت معاذ ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ قیامت کے دن مؤمن سے اس کی تمام کوششوں کی بازپرس ہوگی ‘ یہاں تک کہ آنکھوں میں سرمہ لگانے کی بھی۔ (ابو نعیم و ابن ابی حاتم) حسن بصری کی مرفوع روایت ہے کہ بندہ جو خطبہ دے گا ‘ اللہ اس کے متعلق باز پرس کرے گا کہ کس مقصد سے ایسا کیا تھا ‘ یہ حدیث مرسل ہے۔ (رواہ البیہقی) آیت میں لفظ ثُمَّ بتارہا ہے کہ سوال نعمت جحیم کو دیکھنے کے بعد ہوگا۔ میں کہتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ سوال نعمت پل صراط پر ہوگا۔ اللہ نے فرمایا ہے : وقفوھم انھم مسؤلون۔ ان کو روکو ‘ ان سے بازپرس کی جائے گی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بندہ کے قدم پل صراط سے نہیں ہٹیں گے جب تک اس سے چار باتوں کے متعلق باز پرس نہیں کرلی جائے گی : 1) عمر کو کس کام میں ختم کیا۔ 2) جسم کو کس کام میں دبلا کیا۔ 3) علم کے مطابق کیا عمل کیا۔ 4) مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا ؟ (مسلم) حضرت ابن مسعود کی روایت سے ترمذی اور ابن مردویہ نے بھی ایسی ہی حدیث بیان کی ہے۔ قرطبی نے لکھا ہے کہ ان عمومی احکام سے وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جن کے متعلق احادیث میں آگیا ہے کہ وہ بلا حساب جنت میں جائینگے۔ حضرت ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم میں سے کسی میں طاقت نہیں کہ ہزار آیات روز پڑھ لیا کرے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا : ہزار آیت روز کون پڑھ سکتا ہے ؟ فرمایا : کیا تم میں سے کوئی (روز) الھٰکم التکاثر بھی نہیں پڑھ سکتا۔ (الحاکم والبیہقی) الحمد للہ سورة التکاثر ختم ہوئی بعونہ و منہ و تعالیٰ
Top