Tafseer-e-Mazhari - At-Tur : 28
وَ اَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّةِ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ١ؕ عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ
وَاَمَّا : اور جو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو سُعِدُوْا : خوش بخت ہوئے فَفِي الْجَنَّةِ : سو جنت میں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس میں مَا دَامَتِ : جب تک ہیں السَّمٰوٰتُ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضُ : اور زمین اِلَّا : مگر مَا شَآءَ : جتنا چاہے رَبُّكَ : تیرا رب عَطَآءً : عطا۔ بخشش غَيْرَ مَجْذُوْذٍ : ختم نہ ہونے والی
اور جو نیک بخت ہوں گے، وہ بہشت میں داخل کیے جائیں گے اور جب تک آسمان اور زمین ہیں ہمیشہ اسی میں رہیں گے مگر جتنا تمہارا پروردگار چاہے۔ بےشک تمہارا پروردگار جو چاہتا ہے کردیتا ہے۔ اور جو نیک بخت ہوں گے وہ بہشت میں داخل کئے جائیں گے (اور) جب تک آسمان اور زمین ہیں ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ مگر جتنا تمہارا پروردگار چاہے۔ یہ (خدا کی) بخشش ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی
واما الذین سعد واففی الجنۃ خلدین فیھا ما دامت السموت والارض الا ما شآء ربک اور لیکن جو خوش نصیب ہوں گے وہ جنت میں ہوں گے جہاں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم رہیں گے مگر جب آپ کے رب کی مشیت ہوگی (تو نکل سکیں گے اگرچہ کبھی نہیں نکل سکیں گے) استثناء کے متعلق علماء کے مختلف اقوال اس آیت میں بھی وہی ہیں جو گزشتہ آیت کی تفسیر میں بیان کر دئیے گئے۔ میرے نزدیک اس جگہ پسندیدہ قول یہ ہے کہ بعض اوقات میں اہل جنت کو اس درجہ پر فائز کردیا جائے گا جو جنت سے بھی اعلیٰ ہوگا ‘ یعنی اللہ کے دیدار میں استغراق اور بارگاہ اقدس سے ناقابل بیان اتصال۔ اہل تفسیر نے آیۃ وُجُوْہٌ یَّوْمَءِذٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰی رَبِّھَا ناظِرَۃٌ کی تشریح میں لکھا ہے کہ اِلٰی رَبِّھَا ناظِرَۃٌ میں اِلٰی رَبِّھَاکو ناظِرَۃٌ سے پہلے ذکر کرنا مفید حصر ہے (اپنے رب ہی کی طرف دیکھ رہے ہوں گے) یعنی اللہ کے دیدار میں اتنا غرق ہوں گے کہ کسی دوسری چیز کی طرف نگاہ بھی نہیں اٹھائیں گے۔ حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اہل جنت اپنے عیش میں ہوں گے کہ اچانک اوپر سے ایک نور ان پر نمودار ہوگا۔ وہ سر اٹھا کر دیکھیں گے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اوپر ان کو جھانکتا دکھائی دے گا اور خطاب فرمائے گا : اے اہل جنت ! تم پر سلام ہو۔ آیت سَلَامٌ قَوْلاً رَّبٍّ رَحِیْمٍ کا یہی مطلب ہے۔ غرض اللہ ان کی طرف دیکھے گا اور وہ اللہ کی طرف۔ اللہ کی جانب دیکھنے کے وقت وہ کسی اور نعمت کی طرف التفات بھی نہیں کریں گے ‘ یہاں تک کہ اللہ حجاب کرلے گا اور اس کی چمک و برکت اہل جنت کی گردن میں رہ جائے گی۔ (رواہ ابن ماجہ ‘ وابن ابی الدنیا ودارقطنی) حضرت مجدد (رح) نے اپنے مکتوب نمبر 100‘ جلد سوئم میں حضرت یعقوب کی حضرت یوسف کے ساتھ دلآویزی کی حقیقت کی تشریح کے ذیل میں لکھا ہے کہ اللہ کے اسماء میں سے جو اسم جس شخص کو مبدء تعین (مرکز ظہور) ہوتا ہے ‘ اس اسم کا ظہور (کسی جسم کے اندر) اس شخص کی جنت ہوتا ہے اور اس اسم کا ظہور تجلی درختوں ‘ نہروں ‘ شاندار محلات اور حور و غلمان کی شکل میں ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ” جنت کی مٹی پاکیزہ ہے اور پانی شیریں ہے اور وہاں میدان ہیں اور اس کے پودے یہی ہیں یعنی : سُبْحَان اللہ والْحَمْدُ اللہ ولا اِلٰہَ الاَّ اللہ جنت کے پودے ہیں “۔ حضرت مجدد (رح) نے فرمایا : کبھی یہ درخت اور نہریں (چمکدار ‘ روشن) زجاجی اجسام (جیسے عینک کے آئینے) کی شکل اختیار کرلیں گے اور اللہ کے بےکیف دیدار کے حصول کا ذریعہ ہوجائیں گے (انہیں کے ذریعے سے اللہ کا دیدار حاصل ہوجائے گا مگر یہ رویت ہر کیفیت سے پاک ہوگی ‘ پھر اپنی اصلی (شجری یا نہری) شکل کی طرف لوٹ آئیں گی اور مؤمن پھر انہیں سے (اسی شجری یا نہری شکل میں) تفریح کرے گا اور اس طرح ہمیشہ ہمیشہ ہوتا رہے گا۔ ہم نے اس مقام کی مزید توضیح سورة القیامۃ کی آیۃ رویت کی تفسیر کے ذیل میں کی ہے۔ عطاء غیر مجذوذ وہ غیر منقطع علیہ ہوگا۔ یعنی اللہ کا وصال اور دیدار ایک ایسا عطیۂ خداوندی ہوگا جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا۔ یوں تو جنت کی ہر نعمت غیر منقطع اور لازوال ہوگی ‘ لیکن اللہ کا وجود اصل اور حقیقی ہے اور دوسری چیزوں کا وجود ظلّی ہے ‘ اللہ کے وجود سے وابستہ (بلکہ اس کا پرتو۔ مترجم) پس بذاتہ اور خود بخود موجود صرف اللہ ہے ‘ باقی ہر چیز ہلاک (اور معدوم الاصل) ہے ‘ جیسے مانگے کپڑے اپنے نہیں ہوتے ‘ مالک کے ہوتے ہیں۔ پس اللہ جو اہل جنت کو اپنا بےکیف وصل عنایت کرے گا اور بےحجاب دیدار دکھائے گا وہی اصل ‘ حقیقی اور غیر منقطع عطا ہوگی ‘ باقی دوسری نعمتیں واصل ذات کے مقابلے میں ذیلی ظلّی اور اصلاً معدوم ہوں گی۔ وا اللہ اعلم۔ ابن زید نے کہا : اہل جنت کے لئے تو اللہ نے اپنی غیر منقطع عطا کا ذکر کردیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ دوزخیوں کے لئے کیا چاہے گا ‘ کیا کبھی ان کا عذاب منقطع کرنا چاہے گا یا ان کا عذاب بھی لازوال ہوگا بلکہ دوزخیوں کے حق میں فرمایا : اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ۔
Top