Tafseer-e-Mazhari - Hud : 73
قَالُوْۤا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُهٗ عَلَیْكُمْ اَهْلَ الْبَیْتِ١ؕ اِنَّهٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَتَعْجَبِيْنَ : کیا تو تعجب کرتی ہے مِنْ : سے اَمْرِ اللّٰهِ : اللہ کا حکم رَحْمَتُ اللّٰهِ : اللہ کی رحمت وَبَرَكٰتُهٗ : اور اس کی برکتیں عَلَيْكُمْ : تم پر اَهْلَ الْبَيْتِ : اے گھر والو اِنَّهٗ : بیشک وہ حَمِيْدٌ : خوبیوں والا مَّجِيْدٌ : بزرگی والا
انہوں نے کہا کیا تم خدا کی قدرت سے تعجب کرتی ہو؟ اے اہل بیت تم پر خدا کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں۔ وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے
قالوا اتعجبین من امر اللہ فرشتوں نے کہا : کیا اللہ کے حکم پر تجھے تعجب ہو رہا ہے ؟ حکم سے مراد ہے اللہ کی قدرت اور قضاء۔ یعنی اللہ کی قدرت پر تجھے تعجب نہ ہونا چاہئے ‘ کیونکہ اللہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے : ہوجا ‘ پس وہ چیز ہوجاتی ہے۔ ایک شبہ : تعجب نام ہے اس حالت کا جو کسی انوکھے اور غیر معمولی امر کو دیکھنے کی وجہ سے انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ اور اولاد کی بشارت تھی بھی انوکھی ‘ غیر معمولی چیز۔ لیکن کسی امر کے غیر معمولی اور انوکھے ہونے سے یہ بات تو نہیں کہی جاسکتی کہ وہ اللہ کی قدرت سے باہر ہے۔ ہر نادر امر اللہ کی قدرت میں داخل ہے اور اس پر تعجب کرنا نامناسب (اور خلاف فطرت۔ مترجم) بھی نہیں ہے۔ پھر فرشتوں نے حضرت ابراہیم کی بیوی کے تعجب کا انکار کیوں کیا (اور اس کو نازیبا کیوں قرار دیا۔ مترجم) ازالہ : کاشانۂ نبوت اور مہبط وحی و معجزات میں رہنے والوں کے خصوصی مرتبہ کا تقاضا تھا کہ (روزمرہ) ہونے والے غیرمعمولی واقعات اور خارق عادت حوادث ان کیلئے غیر معمولی اور کوئی اچھنبے کی چیز نہ ہوں ‘ نہ ان کو ان پر کوئی تعجب کرنا چاہئے۔ کوئی ہوش مند (مؤمن) ایسے نادر واقعات پر (روزمرہ دیکھنے کی وجہ سے) تعجب نہیں کرسکتا۔ حضرت ابراہیم کی بیوی کی تو ساری عمر ایسے نشانہائے قدرت دیکھنے ہی میں بیتی تھی ‘ ان کا تعجب کرنا تو بہت ہی زیادہ تعجب آفریں تھا۔ رحمت اللہ وبرکتہ علیکم اھل البیت اے اہل خانہ ! تم پر اللہ کی رحمت اور اسکی برکتیں (نازل) ہیں (یا ہوں) بعض علماء نے کہا : یہ جملہ دعائیہ ہے۔ بعض نے کہا : خبریہ ہے (ہم نے دونوں ترجمے کر دئیے ہیں۔ مترجم) رحمت سے مراد ہے نعمت یا محبت اور برکت سے مراد ہے ہر خیر کی ترقی اور بڑھوتری۔ بعض علماء کے نزدیک رحمت سے مراد ہے نبوت اور برکات سے مراد ہیں بنی اسرائیل کے (بارہ) خاندان ‘ کیونکہ تمام انبیاء بنی اسرائیل حضرت سارہ کی نسل سے ہوئے ہیں۔ رحمت اللہ الخ مستقل جملہ ہے اور رفع تعجب کی علت ہے۔ مطلب یہ کہ اے اہل خانہ ! تم کو بشارت اولاد پر تعجب نہ کرنا چاہئے۔ اللہ کی ایسی رحمتیں اور برکتیں تو تمہارے لئے بکثرت موجود ہیں۔ اَھْلَ الْبَیْتِ میں لازم کا زبر فعل مدح کے محذوف ہونے کی وجہ سے ہے ‘ یا نداء کی وجہ سے ‘ یا فعل تخصیص مقدر ہونے کی وجہ سے۔ شیعہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل نہ تھیں۔ آیت میں شیعہ کے اس قول کی تردید ہے (حضرت سارہ کو اہل بیت کے لفظ سے مخاطب کیا گیا ہے) لغت کے لحاظ سے اہل خانہ تو بیویاں ہی حقیقت میں ہوتی ہیں ‘ دوسرے لوگوں کو تو تبعاً اہل بیت کہا جاتا ہے۔ انہ حمید مجید۔ وہ نہایت قابل ستائش ‘ بڑی ہی شان والا ہے۔ حَمِیْدٌ یعنی مستحق ستائش کام کرنے والا۔ مجد کے معنی جوہری نے صحاح میں لکھے ہیں : (ذاتی) بزرگی اور (افادی) کرم کی وسعت۔ کریم اللہ کی صفت بھی ہے اور انسان کی بھی۔ اللہ کے کرم کا معنی ہے : احسان اور پیہم عطائے نعمت ‘ اور انسان کے کریم ہونے کا معنی ہے : اس کے اخلاق و افعال کا قابل ستائش ہونا۔ جب تک اخلاق حمیدہ کا ظہور انسان سے نہ ہوگا ‘ اس کو کریم نہیں کہا جاسکتا۔ بغوی نے لکھا ہے : (لغت میں) مجد کا اصل معنی ہے بلندئ شان۔ بیضاوی نے مجید کا ترجمہ کیا ہے : کثیر الخیر والاحسان۔ قاموس میں ہے : مجید بلند شان والا۔ کریم شرف والا ‘ فعال۔
Top