Tafseer-e-Mazhari - Ar-Ra'd : 14
لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَهُمْ بِشَیْءٍ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّیْهِ اِلَى الْمَآءِ لِیَبْلُغَ فَاهُ وَ مَا هُوَ بِبَالِغِهٖ١ؕ وَ مَا دُعَآءُ الْكٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ
لَهٗ : اس کو دَعْوَةُ : پکارنا الْحَقِّ : حق وَالَّذِيْنَ : اور جن کو يَدْعُوْنَ : وہ پکارتے ہیں مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا لَا يَسْتَجِيْبُوْنَ : وہ جواب نہیں دیتے لَهُمْ : ان کو بِشَيْءٍ : کچھ بھی اِلَّا : مگر كَبَاسِطِ : جیسے پھیلا دے كَفَّيْهِ : اپنی ہتھیلیاں اِلَى الْمَآءِ : پانی کی طرف لِيَبْلُغَ : تاکہ پہنچ جائے فَاهُ : اس کے منہ تک وَمَا : اور نہیں هُوَ : وہ بِبَالِغِهٖ : اس تک پہنچنے والا وَمَا : اور نہیں دُعَآءُ : پکار الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) اِلَّا : سوائے فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی
سودمند پکارنا تو اسی کا ہے اور جن کو یہ لوگ اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان کی پکار کو کسی طرح قبول نہیں کرتے مگر اس شخص کی طرح جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلا دے تاکہ (دور ہی سے) اس کے منہ تک آ پہنچے حالانکہ وہ (اس تک کبھی بھی) نہیں آسکتا اور (اسی طرح) کافروں کی پکار بیکار ہے
لہ دعوۃ الحق سچا پکارنا اسی کیلئے خاص ہے ‘ یعنی اسی کی دعوت واجب القبول ہے اور دوسرے کی دعوت قابل قبول نہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ اسی کی سچی پکار ہے ‘ وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس کی عبادت کی طرف بلایا جائے اور اسی سے حاجتیں پوری کرنے کی دعا کی جائے۔ یا دعوۃ الحق سے مراد ہے : اخلاص کے ساتھ دعا کرنا ‘ یعنی اخلاص کے ساتھ دعا اسی سے کی جاسکتی ہے۔ ان تمام توجیہات پر حق سے مراد ہوگا : وہ مفہوم جو باطل کی ضد ہے۔ دعوۃ موصوف ہے ‘ الحق صفت۔ موصوف کو صفت کی طرف مضاف کردیا گیا ہے ‘ جیسے مسجد الجامع اور جانب الغربی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الحق کا موصوف المدعو محذوف ہو ‘ یعنی دعوۃ الحق المدعو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حق سے مراد اللہ ہے۔ اللہ کی ہر پکار حق کی طرف بلاوا ہے۔ ایک شبہ : اگر حق سے مراد اللہ ہو تو کلام غیر مفید ہوگا۔ اللہ کی پکار تو اللہ کے ساتھ مخصوص ہے ‘ جیسے دوسروں کی پکار دوسروں کے ساتھ مخصوص ہے۔ جواب : (بیشک اللہ حق ہے لیکن) لفظ حق ذکر کرنے سے اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ کی پکار ‘ حق کی پکار ہے۔ دعوت حق ‘ حق ہوتی ہے جیسے باطل کو پکارنا باطل ہوتا ہے۔ گویا یہ جملہ اپنے اندر دعوے کے ساتھ دلیل بھی رکھتا ہے۔ بغوی نے ذکر کیا ہے کہ حضرت علی نے فرمایا : دعوت حق توحید ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : دعوت حق لا الٰہ الا اللہ کی شہادت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی کیلئے خاص ہے توحید اور شہادت کی دعوت۔ اگر آیت کا نزول عامر اور اربد کے متعلق مانا جائے تو دونوں جملوں کا مقصد یہ ہوگا کہ ان دونوں شخصوں کو اس طور پر ہلاک کرنا کہ ان کو پتہ بھی نہ ہو ‘ اللہ کی خفیہ تدبیر کے زیر اثر تھا اور رسول اللہ ﷺ کی دعا کی وجہ سے تھا ‘ یعنی آپ کی دعا قبول ہوگئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ رسول برحق ہیں جب ہی تو آپ کی دعا اللہ نے قبول فرما لی اور اگر آیت کو (کسی شان نزول سے متعلق قرار نہ دیا جائے بلکہ) عام مانا جائے تو کافروں کو تہدید کرنی مقصود ہوگی کہ تم اللہ کے رسول سے جھگڑتے ہو۔ اللہ بڑا طاقتور اور خفیہ تدبیر کرنے والا ہے اور رسول کی دعا قبول کرنے والا ہے۔ یا صرف کافروں کی بدعقیدگی اور گمراہی ظاہر کرنا مقصودد ہے (تہدید مقصود نہیں) ۔ والذین یدعون من دونہ لا یستجیبون لھم بشی الا کباسط کفیہ الی الماء لیبلغ فاہ وما ھو ببالغہ اور اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں ‘ وہ ان کی درخواست کو اس سے زیادہ منظور نہیں کرسکتے جتنا پانی اس شخص کی درخواست کو منظور کرتا ہے جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو کہ پانی خود بخود اس کے منہ تک آجائے حالانکہ وہ (پانی) ازخود (آگے بڑھ کر) اس کے منہ تک آنے والا نہیں۔ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ۔ الَّذِیْنَ سے مراد یا تو کفار ہیں اور یَدْعُوْن کا مفعول محذوف ہے ‘ یعنی بت وغیرہ۔ ترجمہ اس طرح ہوگا : اور وہ کافر جو اللہ کے علاوہ دوسری چیزوں کو پکارتے ‘ ان کی عبادت اور یاد کرتے ہیں اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔ یا الَّذِیْنَ سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کی کافر پوجا کرتے ہیں۔ ترجمہ اس طرح ہوگا : اور جن بتوں کو یہ کافر پوجتے ہیں۔ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَھُمْ بِشَیْءٍ وہ بت ان کافروں کی کوئی درخواست حصول نفع کی ہو یا دفع ضرر کی ‘ قبول نہیں کرتے۔ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ کا معنی ہے : لَا یُجِیْبُوْنَ منظور نہیں کرتے۔ اِلاَّ کَبَاسِطِ کَفَّیْہِ مستثنیٰ محذوف ہے اور باسط سے پہلے مضاف بھی محذوف ہے مگر اتنی ہی منظوری جتنی منظوری اس شخص کیلئے ہوتی ہے جو پانی کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے کہ پانی خود اس کے منہ تک پہنچ جائے۔ یعنی ایک پیاسا جو کنویں کی منڈیر پر بیٹھا پانی کی طرف ہاتھ بڑھا رہا ہو اور پانی کو اپنی طرف بلا رہا ہو۔ خود تو اندر اتر نہیں سکتا ‘ پانی کو بلاتا ہے۔ وَمَا ھُوَ بِبَالِغِہٖ (ظاہر ہے کہ) پانی اس کے منہ تک اڑ کر پہنچنے والا نہیں۔ وہ تو بےجان اور بےشعور چیز ہے ‘ اس کو معلوم بھی نہیں کہ کون اس کو پکار رہا ہے ‘ نہ وہ کسی کے بلاوے کو قبول کرسکتا ہے اور نہ دعوت پر آسکتا ہے۔ کافروں کے معبودوں کی بھی یہی حالت ہے ‘ کافر بتوں کو پکارتے ہیں ‘ بتوں کو ان کی پکار کا پتہ بھی نہیں ہوتا۔ وہ بےشعور و بےجان ہیں ‘ وہ ان کی دعا قبول نہیں کرسکتے۔ مطلب کی یہ تشریح مجاہد اور عطاء نے کی ہے اور حضرت علی سے بھی یہی تفسیر منقول ہے۔ لیکن بعض اہل تفسیر کا قول ہے کہ بتوں کی عبادت اور دعاء کی عدم افادیت کو اس شخص کی حالت سے تشبیہ دی گئی ہے جو پینے کیلئے چلو بھر کر پانی لینا چاہتا ہو اور دونوں ہتھیلیاں پانی کی طرف پھیلائے اور پانی کو ہتھیلی میں اٹھانا چاہے۔ ظاہر ہے کہ پانی کو پکڑنے والا پکڑ نہیں سکتا اور اس کے منہ تک پانی پہنچ نہیں سکتا۔ بتوں کے پجاریوں کی بھی یہی حالت ہے ‘ بت نہ ان کو فائدہ پہنچا سکتے نہ ضرر (ان کی عبادت ایسی ہے جیسے پانی کو پکڑنے کی کوشش) یہ تشریح حضرت ابن عباس کے قول میں بھی آئی ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : غیر اللہ کی پوجا کرنے والے ایسے ہیں جیسے کوئی پیاسا اپنی دونوں ہتھیلیاں پانی کے اندر پھیلا دے۔ جب تک ہتھیلیاں پھیلائے رکھے گا ‘ چلّو نہ بنائے گا ‘ پانی نہ آئے گا اور منہ تک نہیں پہنچے گا۔ اس صورت میں بت پرستوں کی ناکامی کی ہتھیلیاں پھیلائے رکھنے والے پیاسے کی ناکامی سے تشبیہ ہوگی۔ وما دعاء الکفرین الا في ضلل اور (ان باطل معبودوں سے) کافروں کا درخواست کرنا محض بےاثر ہے۔ ضلال بیکار ‘ ضائع ‘ سراسر خسارہ۔ ضحاک نے حضرت ابن عباس کا یہ تشریحی قول نقل کیا ہے کہ کافروں کا اپنے رب کو پکارنا بالکل بےسود ہے ‘ بیکار ہے۔ کفر و معاصی کے پردے اللہ تک پہنچنے میں آڑے آتے ہیں ‘ ان کی دعائیں رب تک پہنچتی ہی نہیں۔
Top